کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 110
فصل دوم نکاح کے رستے میں حائل رکاوٹوں کا ازالہ ۱۔ تمہید: اسلام نے نکاح کی صرف ترغیب ہی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے لیے جلدی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے علی! تین چیزوں کو مؤخر نہ کرو،(۱)نماز کو جب اس کا وقت ہوجائے،(۲)جنازہ کو جب وہ حاضر ہو اور(۳)بے شوہر عورت کو جب اس کے لیے ہم پلہ رشتہ پالو۔ [1] اسلام نے شادی جلد کرنے کا حکم اس لیے دیا ہے کیونکہ تأخیر کی صورت میں حرام میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔ [2]
[1] جامع الترمذی مع تحفۃ الأحوذی ۲/ ۱۶۵، امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور میری رائے میں اس کی سند متصل نہیں ہے۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اسے امام ابن ماجہ، حاکم اور ابن حبان نے بھی روایت کیا ہے۔ یرک کہتے ہیں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں اور بظاہر اس کی سند متصل ہے۔ (تحفۃ الأحوذی ۲/ ۱۶۵). [2] ہم نے اوپر متن میں جو لکھا ہے، اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ویل ڈیورانٹ نے اپنی کتاب ’’مباھج الفلسفۃ ‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’ ہم اس معاشرتی خرابی کی مقدار کو نہیں جانتے، جس کا ذمہ دار ہم شادی میں تاخیر کو قرار دے سکتے ہیں۔ لاریب اس خرابی کا کچھ سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تعدد ازواج میں رغبت کے بارے میں ہمارا تصور واضح نہیں ہے … لیکن عصر حاضر میں اس خرابی کا غالب گمان کے مطابق بڑا سبب ازدواجی زندگی میں غیر طبعی تاخیر ہے۔ شادی کے بعد جو جنسی بے راہ روی پیدا ہوتی ہے، اکثر و بیشتر حالات میں وہ شادی سے قبل کی عادت ہی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہم اس روشن صفت سے حیاتی اور معاشرتی علل و اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی اس اعتبار سے تجاوز بھی کرجاتے ہیں کہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے کہ تخلیق انسان کی دنیا میں اس سے چارۂ کار نہیں، عصر حاضر کے اکثر مفکرین کی یہی رائے ہے البتہ یہ صورت حال شرمندگی کا باعث ہے کہ ہم خوشی سے اس بات کو تسلیم کرلیں کہ نصف ملین امریکی دوشیزائیں اپنے آپ کو جنسی انارکی کے مذبح کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں، تصویر کا دوسرا رُخ بھی کم اذیت ناک نہیں ہے کہ ہر وہ مرد جو شادی میں تاخیر کرتا ہے، وہ ان بازاری لڑکیوں کے ساتھ صحبت اختیار کرتا ہے، جو بہت گھٹیا انداز میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی ہوتی ہیں اور تاخیر کے اس دور میں مرد اپنے خاص جذبات کی تسکین کے لیے حکومت کی طرف سے ایک ایسا نظام پاتا ہے، جو جدید ترین سامان عیش و عشرت سے مزین ہوتا ہے اور جیسے علمی ادارے کی بلند اقسام کے ساتھ منظم کیا گیا ہوتا ہے۔ ‘‘ (ص ۱۲۷۔ ۱۲۸، اختصار کے ساتھ) ڈاکٹر فریڈرک کہان نے لکھا ہے کہ ’’ ماضی میں انسان کنواری لڑکیوں کے ساتھ شادی کیا کرتے تھے اور جنسی مسئلہ کا یہی صحیح حل تھا، آج کل شادی کرنے کی عمر میں تاخیر ہوتی جارہی ہے، جیسا کہ بہت سے لوگ منگنی کی انگوٹھیوں کے بار بار تبدیل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، وہ حکومتیں یقینا قابل ستائش ہوں گی، جو ایسے قوانین بنانے میں کامیاب ہوجائیں جن کی روشنی میں جلد شادی کرنا آسان ہوجائے کیونکہ اس سے عصر حاضر میں جنس کے مسئلہ کا سب سے بڑا حل سامنے آجائے گا۔ (بحوالہ کتاب الاسلام والجنس، فتحی یکن ص ۳۲۔ ۳۳، انھوں نے اس بات کو کتاب:’’ حیاتنا الجنسیۃ ‘‘ سے نقل کیا ہے.