کتاب: زنا کے قریب نہ جاؤ - صفحہ 10
کسی شئے کو بچالیں، لحیانی کہتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ وقیتہ الشیئی کے دور ہیں، حدیث میں ہے:’’ مَنْ عَصَی اللّٰہَ لَمْ یَقِہٖ مِنْہُ وَاقِیَۃٌ اِلاَّ بِاِحْلَاثِ التَّوْبَۃِ ‘‘(جس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو توبہ کے بغیر کوئی چیز اسے اس سے نہیں بچاسکے گی)عربی زبان میں یہ محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ وَقَاکَ اللّٰہُ شَرَّ فُـلَانٍ وَقَایَۃً(اللہ تعالیٰ تمھیں فلاں کے شر سے مکمل طور پر محفوظ رکھے)قرآنِ مجید میں ہے:وَمَالَھُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ وَّاقٍ(اور ان کو اللہ(کے عذاب)سے کوئی بھی بچانے والا نہیں)یعنی عذابِ الٰہی کو ٹالنے والا کوئی بھی نہیں۔ اور وَقَاہُ اللّٰہُ وِقَایَۃً(کسرہ کے ساتھ)کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی۔ [1]
القاموس المحیط میں ہے:وقاہ وقیًا ووقایۃ کے معنی ہیں اس نے اس کی حفاظت کی، وَقَّاہُ کے معنی بھی یہی ہیں، وقاء کو کسرہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے، وقایۃ پر تینوں اعراب پڑھے جاسکتے ہیں، اس کے معنی اس چیز کے ہیں جس کے ساتھ آپ بچائیں، التوقیۃ کے معنی حفاظت کے ہیں اور اتقیت الشئی وتقیتہٗ وأتقیہ تُقًی وتقیتہٗ وتِقاء(بروزن کِسَاء)کے معنی بچنے اور پرہیز کرنے کے ہیں، اس سے اسم تقویٰ ہے، جس کا اصل تَقْیًا تھا، اسم اور صفت میں فرق کرنے کے لیے اسے بدل دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:ھُوَ أَھْلُ التَّقْوٰی(وہی ڈرنے کے لائق ہے)یعنی وہ ذاتِ پاک اس لائق ہے کہ اس کے عذاب سے ڈرا جائے۔ [2]
اسلام نے برائی سے بچانے والی مختلف تدابیر کی طرف راہنمائی فرمائی ہے خواہ برائی کی کوئی بھی صورت ہوتا کہ اسلامی معاشرہ پاک صاف زندگی بسر کرے، جس میں الفت و محبت کی فضا ہو، تکافل اور ایک دوسرے کی مدد کے جذبات غالب ہوں، اس
[1] لسان العرب، مادہ ’’ وقی ‘‘، ۳/۹۷۱ (اختصار کے ساتھ).
[2] القاموس المحیط، مادہ ’’ وقاء ‘‘، ۴/ ۴۰۳۔ ۴۰۴.