کتاب: ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 5
کی معرفت حاصل ہوتی جائے گی،اسی قدر ان کی محبت بڑھتی جائے گی اور اسی قدر ان پر درود کی حقیقت جو اللہ تعالیٰ کا مطلوب ہے کھلتی جائے گی اور اس حقیقت کا عرفان ہوتا جائے گا۔ یہی حال ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کے ذکر کا کہ جس قدر زیادہ بندوں کو عرفان ہو گا اور جس قدر زیادہ اس میں اطاعت اور محبت کا مادہ ہو گا۔ اسی قدر اس کے ذکر کو غافلین کے ذکر سے امتیاز حاصل ہو گا۔ یہ ایک ایسا امر ہے جو مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے صرف خبر سے نہیں ۔ دیکھیے، ایک تو وہ شخص ہے جو جوش محبت سے محبوب کی صفات کا ذکر اور اس کی ثناء و تمجید کرتا ہے جس کے دل پر محبت قبضہ کئے ہوئے ہے اور ایک وہ ہے جو صرف قرائن سے ذکر کرتا ہے یا ایسے لفظ بولتا ہے جن کے معنی وہ نہیں جانتا۔وہ تعریف کرتا ہے مگر زبان کے ساتھ دل موافقت نہیں رکھتا۔ ان دونوں میں جو تفاوت ہو سکتا ہے ،وہ ظاہر ہے۔ٹھیک وہی فرق ہو گا جو اجرت پر رونے والی اور پسر مردہ پر رونے والی میں فرق ہوتا ہے۔ الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی یاد اور اللہ تعالیٰ کی حمد، اس نعمت پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارا سردار بنایا اور آپ کی رسالت سے جملہ مخلوقات پر احسان عظیم فرمایا، یہ وجود کی زندگی اور دل کی حیات ہے۔ درود خوانی ایسی سعادت ہے کہ درود خواں کا نام و ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں کیا جاتا ہے اور اہل ایمان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ اس دربار عالی میں اس کا نام لیا جائے؟ درود پڑھنا حقوقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل ہے۔وہ بات الگ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق کے مقابلے میں یہ انتہائی کم ہے اور اس نعمت کی شکر گزاری میں شمار ہوتا ہے جو بعثت ِنبوی سے ہمیں ملی ہے۔ گو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق و استحقاق اس قدر ہیں کہ ان پر کوئی شخص علم