کتاب: ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 43
برکت اور سلام ہو۔ ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو۔ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں ، گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تک زندہ رہے، ہم یہ الفاظ پڑھتے رہے: السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّھَا النَّبِيُّ ۔ آپ فوت ہو گئے، تو ہم یوں پڑھنے لگے: اَلسَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ ۔ ’’اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 1/414، صحیح البخاري : 6265، واللّفظ لہٗ) ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : أَمَّا ہٰذِہِ الزِّیَادَۃُ؛ فَظَاہِرُہَا أَنَّہُمْ کَانُوا یَقُولُونَ : السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِيُّ بِکَافِ الْخِطَابِ فِي حَیَاۃِ النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا مَاتَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؛ تَرَکُوا الْخِطَابَ، وَذَکَرُوہُ بِلَفْظِ الْغَیْبَۃِ، فَصَارُوا یَقُولُونَ : السَّلَامُ عَلَی النَّبِيِّ ۔ ’’زائد الفاظ سے مراد یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کاف خطاب کے صیغے سیکھتے تھے : اے نبی!آپ پر سلامتی ہو۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو صحابہ نے مخاطب کا صیغہ ترک کر دیا اور غائب کے صیغے سے پڑھنا شروع کر دیا،کہنے لگے : اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلامتی ہو۔‘‘ (فتح الباري : 11/56)