کتاب: ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 4
میں سے ایک ہے جس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا۔ انسان جس قدر زیادہ محبوب کا ذکر کرے، محبوب اور اس کی خوبیوں کو یاد رکھے گا اور ان مضامین کو جو محبت بھڑکا دینے والے ہیں پیش نظر رکھے گا،اسی قدر محبت بڑھے گی اور شوق کامل ہو گا۔ حتیٰ کہ تمام دل پر چھا جائے گا۔ لیکن جب ذکر چھوڑ دے اور اس کے محاسن کو دل میں جگہ نہ دے تب محبت کم ہو جاتی ہے ۔ جس طرح محبوب کا دیدار آنکھ کی ٹھنڈک ہے،اسی طرح محبوب کے محاسن کو یاد کرنا، دل کی تسکین کا سبب ہے۔ جب یہ صفت دل میں جگہ پکڑ لیتی ہے، تو زبان خود بہ خود مدح اور ثنا کرنے لگتی ہے اور محبوب کی تعریف بیان کرتی ہے۔ اس صفت میں کمی و بیشی اصل محبت کی کمی بیشی کے موافق ہے۔ چنانچہ حس و مشاہدہ اس پر شاہد ہے۔ درود خوانی انسان کی ہدایت اور حیات قلب کا سبب ہے۔ جس قدر زیادہ درود پڑھے گا اور ذکر مبارک اس کی زبان پر آئے گا۔ اسی قدر محبت بھی دل پر غالب آ ئے گی۔ یہاں تک کہ دل میں کوئی شے ایسی باقی نہ رہ جائے گی جو آپ کے اوامر کا معارضہ کرے یا آپ کی تعلیم پر شک ہونے دے۔بل کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور تعلیمات اس کے دل پر روشن تحریر کے ساتھ لکھی جاتی ہیں اور جس قدر وہ آپ کے احوال میں غور کرتا ہے۔ اتنا ہی گویا لوح دل کی اس تحریر کو پڑھتا رہتا اور اس سے ہمیشہ ہدایت و فلاح اور انواع علوم کا اقتباس کرتا رہتا ہے۔ اب جس قدر اس کی بصیرت بڑھتی اور قوت معرفت زیادہ ہوتی جاتی ہے، اسی قدر زیادہ درود شریف کو بڑھاتا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم و عارفین سنت و ہدایت نبوی اور متبعین احکام کی درود خوانی اور ہے، جب کہ عام لوگوں کی درود خوانی اور قسم کی ہے۔ کیوں کہ انہیں جس قدر زیادہ تعلیم نبوی