کتاب: ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 199
’’اور اس کو حرام کہنا محض جہالت ہے،جب تک کہ ممانعت کی صریح دلیل نہ ملے، اس کو منع نہیں کرسکتے۔استحباب کے لیے مسلمانوں کا مستحب جاننا ہی کافی ہے،مگر کراہت کے لیے دلیل خاص کی ضرورت ہے۔‘‘ (جاء الحق : 1/399)
کسی ثقہ مسلمان سے باسند صحیح انگوٹھے چومنے کو مستحب کہنا ثابت نہیں ۔ مدعی پر دلیل لازم ہے۔ ہم اسے بدعت کہتے ہیں کہ اس پر دلیل شرعی نہیں ، مذکورہ عبارت سے محسوس ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کی روایات واقعتا اس لائق نہیں کہ انہیں حجت کے طور پر پیش کیا جاسکے، تبھی تو انسانوں کا بے ثبوت عمل پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔
یہ کہنا کہ ممانعت کی صریح دلیل نہیں ، اس لیے ناجائز وبدعت نہیں کہنا چاہیے، تو اہل علم اس کی طرف التفات نہیں کرتے۔ عبادات اوردین کے متعلق احکام اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت سے کیے جاتے ہیں ، ممانعت نہ وارد ہونے کی وجہ سے نہیں ۔ اگر یہ قاعدہ مان لیا جائے کہ ممانعت وارد نہیں ہوئی، لہٰذا یہ کام جائز ہے، تو دنیا کی ہر بدعت اس میں سما جائے گی، کسی بھی کام کو بدعت کہنے کا جواز ہی نہیں رہے گا۔
اگر کوئی عید الفطر سے پہلے اذان کہے، اس کے بارے میں ممانعت نہیں ہے، تو کیا یہ مستحب کا درجہ پا لے گی؟
علامہ ابوشامہ رحمہ اللہ (۶۶۵ھ)فرماتے ہیں :
کُلُّ مَنْ فَعْلَ أَمْرًا مُّوْہِمًا أَنَّہٗ مَشْرُوْعٌ، وَلَیْسَ کَذٰلِک؛ فَہُوَ غَالٍ فِي دِیْنِہٖ، مُبْتَدِعٌ فِیہِ، قَائِلٌ عَلَی اللّٰہِ غَیْرَ الْحَقِّ بِلِسَانِ مَقَالِہٖ، أَوْ لِسَانِ حَالِہٖ ۔
’’جو کسی کام کو مشروع سمجھ کر کرتا ہے، جبکہ وہ مشروع نہیں ہوتا، تو وہ دین میں غلو کرتا ہے، بدعت ایجاد کرتا ہے اور زبانِ قال یا زبانِ حال سے اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے۔‘‘
(الباعث علی إنکار البِدَع والحَوادث، ص 21-20)
٭٭٭٭٭