کتاب: ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 196
دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے، اس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں گی۔‘‘
(المَقاصِد الحَسَنۃ للسّخاوي، ص 384)
بے سند، بے ثبوت جھوٹی اور باطل روایت ہے۔
حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
بِسَنَدٍ فِیْہِ مَجَاہِیْلُ مَعَ انْقِطَاعِہٖ ۔
’’سند میں مجہول راوی ہیں ، منقطع بھی ہے۔‘‘
مجہول راوی ہیں یا نہیں ، اس کا تعین تب کیا جاسکتا ہے، جب سند موجود ہو، اس کی تو سند ہی موجود نہیں ۔ اب علما کی تصریحات ملاحظہ ہوں :
حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
لَا یَصِحُّ فِي الْمَرْفُوْعِ مِنْ کُلِّ ہٰذَا شَيْئٌ ۔
’’اس معنی کی مرفوع احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ۔‘‘
(المَقاصِد الحَسَنۃ للسّخاوي، ص 385)
علامہ ملا علی قاری حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
کُلُّ مَا یُرْوٰی فِي ہٰذَا؛ فَلَا یَصِحُّ رَفْعُہُ الْبَتَّۃَ ۔
’’اس بارے میں کوئی بھی مرفوع روایت قطعاً ثابت نہیں ہے ۔‘‘
(الموضوعات الکبرٰی، ص 210)
علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں :
لَمْ یَصِحَّ فِي الْمَرْفُوعِ مِنْ کُلِّ ہٰذَا شَيْئٌ ۔
’’ان میں سے کوئی مرفوع روایت ثابت نہیں ۔‘‘ (رَدّ المُحتار : 1/293)