کتاب: ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 113
بیٹھے ہوں ۔‘‘
(مسند أحمد : 1/386، سنن أبي داوٗد : 995، سنن النسائي : 1177، سنن التّرمذي : 366)
’’مرسل‘‘ ہونے کی وجہ سے ’’ضعیف‘‘ ہے، ابو عبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
اَلرَّاجِحُ أَنَّہٗ لَا یَصِحُّ سَمَاعُہٗ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’راجح یہی ہے کہ ابو عبیدہ کا اپنے والدسے سماع ثابت نہیں ۔‘‘
(تقریب التّہذیب : 8231)
نیز فرماتے ہیں :
إِنَّہٗ عِنْدَ الْـأَکْثَرِ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’جمہور کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد سے سماع نہیں کیا۔‘‘
(مُوافقۃ الخبر الخبر : 1/364)
لہٰذا امام حاکم رحمہ اللہ (1؍ 296)کا اس روایت کو ’’امام بخاری و مسلم رحمہمااللہ کی شرط پر صحیح‘‘ قرار دینا درست نہیں ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہُوَ مُنْقَطِعٌ، لِأَنَّ أَبَا عُبَیْدَۃَ لَمْ یَسْمَعْ مِنْ أَبِیہِ ۔
’’منقطع ہے، کیوں کہ ابو عبیدہ نے اپنے والدسے سماع نہیں کیا۔‘‘
(التّلخیص الحبیر : 1/263، ح : 406)
اس سے پہلے تشہد میں درود کی نفی نہیں ہوتی،بل کہ صرف اتنا ہے کہ پہلا تشہد،دوسرے