کتاب: ذکر مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم - صفحہ 10
وَالْوَجْہُ الثَّانِي أَنَّ ذٰلِکَ سُمِّيَ مِنَّا صَلَاۃً لِّسُؤَالِنَا مِنَ اللّٰہِ أَنْ یُّصَلِّيَ عَلَیْہِ، فَصَلَاۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ؛ ثَنَاؤُہٗ وَإِرَادَتُہٗ لِرَفْعِ ذِکْرِہٖ وَتَقْرِیبِہٖ، وَصَلَاتُنَا نَحْنُ عَلَیْہِ؛ سُؤَالُنَا اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یَّفْعَلَ ذٰلِکَ بِہٖ ۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس طرح درود پڑھنے کاحکم ہے،جس طرح اللہ اور اس کے فرشتے پڑھتے ہیں ۔ درود نام ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وتوصیف، بیان فضیلت اور تکریم وتعظیم کا۔ اس آیت میں بیک وقت خبر بھی ہے اور طلب بھی۔ ہم جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سوال اور دعا کرتے ہیں ، اس کا نام درود رکھنے کی دو وجہیں ہیں ۔ ایک یہ کہ درود وسلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وتوصیف ہے، درود پڑھنے والا چاہتا ہے کہ جس طرح میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت کا ذکر کررہا ہوں ، اسی طرح اللہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے۔یوں اس آیت میں خبروطلب دونوں موجود ہیں ، دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کرنے کی دعا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا درود درحقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا ،بلندی ذکر اورقرب ہے۔ہمارا درود یہ ہے ہم اللہ تعالیٰ سے ایسا کرنے کی دعا کرتے ہیں ۔‘‘ (جلاء الأفھام في فضل الصّلاۃ علی محمَّد خیر الأنام، ص 162) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-700ھ) فرماتے ہیں : اَلْمَقْصُودُ مِنْ ہٰذِہِ الْآیَۃِ أَنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی أَخْبَرَ عِبَادَہٗ بِمَنْزِلَۃِ عَبْدِہٖ وَنَبِیِّہٖ عِنْدَہٗ فِي الْمَلَإِ الْـأَعْلٰی؛ بِأَنَّہٗ یُثْنِي عَلَیْہِ عِنْدَ الْمَلَائِکَۃِ الْمُقَرَّبِینَ، وَأَنَّ الْمَلَائِکَۃَ تُصَلِّي عَلَیْہِ، ثُمَّ أَمَرَ تَعَالٰی أَہْلَ الْعَالَمِ