کتاب: زیور علم اور مثالی طالب علم کے اخلاق و اوصاف - صفحہ 106
کَانُوْا)) (یہ جہاں بھی ہوں اﷲ تعالیٰ کے ذخیرے ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ وہ بادشاہ کے جمع شدہ خزانے ہیں جو اس کے ہاں پوشیدہ طور پر پڑے ہوئے ہیں اور مہمات کے لیے جمع کر رکھے ہیں، وہ ہر ایک کے لیے انھیں خرچ نہیں کرتا۔ اسی طرح انسان کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے جسے اس نے اپنی ضروریات اور خاص کاموں کے لیے جمع کر رکھا ہوتا ہے۔ یہ لوگ جب عام لوگوں سے پوشیدہ ہوتے ہیں، کچھ اسباب کی بنا پر ان کی نشان دہی نہیں ہو سکتی، وہ عام لوگوں سے ہٹ کر کسی خاص نشان کے ساتھ ممتاز نہیں ہوتے۔ وہ کسی مخصوص طریقے، مسلک، شیخ یا لباس کے نام سے منسوب نہیں۔ ان کی حیثیت چھپا کر رکھے ہوئے ذخائر کی سی ہے۔ یہ لوگ مخلوقِ خدا میں سب سے زیادہ آفات سے دور ہوتے ہیں، کیوں کہ آفات ساری کی ساری رسوم و قیود کو اپنانے، اصطلاحی طریقوں کو لازم پکڑنے اور نت نئے اور ہر لحظہ بدلتے ہوئے حالات سے ہم آہنگ ہونے کی کوششوں میں ہیں۔ یہی وہ اسباب ہیں جو مخلوق کی اکثریت کے لیے اﷲ تعالیٰ سے رشتۂ عبودیت منقطع ہونے کا باعث ہیں اور وہ اس سے بالکل بے خبر ہیں۔ اور تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہ لوگ طلبِ علم اور ارادۂ ہدایت و معرفت اور راہِ حق کے مسافر ہونے کی وجہ سے مشہور و معروف ہیں، حالانکہ وہ ایک کے بعد ایک ان رسوم و قیود کے سبب اﷲ تعالیٰ سے کٹے ہوئے ہیں۔ کسی امام سے پوچھا گیا کہ سنتِ نبوی کیا ہے؟ جواب میں فرمایا: سنتِ نبوی وہ ہے جس کا نام سوائے سنت کے کوئی نہیں، یعنی اہلِ سنت کے لیے سوائے سنت کے اور کوئی نام نہیں جس سے وہ منسوب ہوں۔ بعض لوگ کسی مخصوص لباس کے پابند ہیں۔ خاص جگہ کے سوا دوسری جگہ بیٹھتے نہیں۔ اُن کا چلنے کا ایک اپنا انداز ہے۔ خاص لباس اور وضع قطع سے جدا نہیں