کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 99
ہے۔ تو وہ کہنے لگے: ’’انت تزعم انک سمعت منه بعد موته بسبع سنین ‘‘ کہ اس کامطلب یہ ہے کہ تم نے ان کے مرنے کے بعد قبر میں جا کے سات سال بعد ان سے سماع کیا ہے۔[1] وہ تو سات سال پہلے فوت ہوچکے تھے، تو اس راوی کا جھوٹ ثابت ہو گیا ،یعنی راویوں کے پرکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ راویوں کا سماع دیکھا جائے ، ان کی ولادت و وفات دیکھی جائے۔
اسی طرح معلی بن عرفان [2]کہتے ہیں کہحدثنی ابو وائل خرج علینا ابن مسعود بصفین ،[3]آپ جیساہوشیار آدمی بیٹھا تھا، وہ کہنے لگا کہ دیکھو !معلی کیا کہہ رہا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہمارے پاس صفین میں آئے ، حالانکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو فوت ہوگئے تھے عثمان غنی کے دور میں ، تو صفین میں کب آئے؟
اس قسم کے راویوں کو پہچاننے کے لئے ایک ذریعہ یہ وفیات کا بھی ہے۔
[1] الجامع لاخلاق الراوی :۱/۱۳۲، نمبر : ۱۴۵، امتحان الراوی بالسوال عن وقت سماعہ ، فتح المغیث:۴/۳۶۶، تدریب الراوی:۲/۴۶۶، النوع الستون،التواریخ والوفیات، الکفایۃ : ۱۹۳۔
مختلف کتب میں یہ واقعہ موجود ہے لیکن اس میں تھوڑا اختلاف بھی ہے۔ جیسا کہ تدریب اور الجامع میں جو واقعہ ہے وہ وہی ہے جس طرف شیخ محترم اشارہ کررہے ہیں،جبکہ الکفایۃ ، ابن ابی حاتم کی الجرح والتعدیل ،حافظ ذہبی کی میزان میں بھی یہ واقعہ ہے ۔ عمر بن موسی بن وجیہ الحمصی کے حوالے سے ہے، اس میں تواریخ مختلف ہیں۔ ۱۱۳ھ کی جگہ ۱۰۸ ہے ،خالد بن معدان کی وفات یہاں ۱۰۴ھ بیان کی گئی ہے ،اس لحاظ سے درمیانی وقفہ ستر کی بجائے چار سال کا ہوا۔ فتح المغیث میںیہ دونوں واقعے موجود ہیں ،اور ان کی وفات کے حوالے سے اختلاف کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ دیکھئے : ۴/۳۶۶، دارالمنھاج
[2] معلی بن عرفان الاسدی الکوفی ، ابن معین نے اسے ليس بشيء ، امام بخاری نے اسے منكر الحديث امام نسائی نے اسے متروك الحديث کہا ہے۔ حافظ ذہبی کہتے ہیں غالی شیعوں میں سے ہے، ابو حاتم نے ضعیف الحدیث ، ابو وائل کہتے ہیں ابو وائل سے مناکیر بیان کرتا ہے، دیکھئے : لسان المیزان : ۷/۱۲۴۔ نیز امام دارقطنی نے الضعفاء والمتروکین میں ذکر کیا ہے، ابن عدی نے الکامل فی الضعفاء میں ذکر کیا ہے۔ امام ذہبی نے دیوان الضعفاء میں ذکر کیا۔
[3] مقدمہ صحیح مسلم ، فتح المغیث : ۴/۳۶۷، الجرح والتعدیل :۸/۳۳۰ ، اس پر تبصرہ کے طور پر ابن ابی حاتم نے ابو نعیم کا قول نقل کیا : ’’ فيا سبحان الله قبر ثم بعث بعد الموت‘‘