کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 95
تطبیق و توفیق کی پانچویں صورت:
توثیق کے کلمات میں یہ بھی ایک کیفیت ہوتی ہے۔ ثقہ کا لفظ جو ہم اصطلاحی ثقہ کا لفظ بولتے ہیں جس سے مراد راوی کی عدالت یا راوی کا ضبط ہوتا ہے۔ لیکن بسا اوقات یہ ثقہ کا لفظ معروف معنی میں نہیں بولتے،بسا اوقات ایک ہی راوی کے بارے میں ایک ہی شخص جرح بھی کررہا ہے اور تعدیل بھی کررہا ہے۔ یہ تودو مختلف افراد کے باہم تعارض سے اور زیادہ سخت قسم کا تعارض ہے۔یہاں ایک ہی محدث کے اقوال میں اختلاف ہے، مثال کے طور پر امام یحی بن معین رحمہ اللہ نےعبدالرحمان بن زیاد کے بارے میں کہا کہ لیس به باس [1]اور امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا ہے کہ جس کے بارے میں’’ لیس به باس‘‘ کہوں تو وہ آدمی ثقہ ہوتا ہے۔[2]
تو یہاں لیس بہ باس کہا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وھو ضعیف ، یہ تو دونوں متضاد باتیں ہوئیں ،کہ جو ثقہ ہے وہ ضعیف کیسے ہے؟ اور جو ضعیف ہے وہ ثقہ کیسے ہے؟ تو ایسی صورت میں علماء نے کہا ہے کہ ثقہ کا لفظ راوی کی توثیق نہیں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ اس کی عدالت تو ثابت ہے ،یعنی کذاب نہیں ہے، متہم نہیں ہے۔ باقی جو اوصاف ہیں اس کے حوالے سے وہ اس کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ یعنی عدالت کے تناظر میں تعدیل ہے اور ضبط کے تناظر میں تضعیف ہے۔
اب دیکھئے اسی طرح ربیع بن صبیح کے بارے میں انہوں نے کہا کہ صدوق ، ثقة ،اور ساتھ
[1] دوری کہتے ہیں کہ میں نے یحی بن معین سے سنا وہ کہہ رہے تھے :’’ الافریقی، لیس بہ باس ، و فیہ ضعف (۵۰۲۵) استاذ محترم کی بیان کردہ تطبیق کی رو سے اس کی عدالت صحیح ہے اور باقی اوصاف کے لحاظ سے یہ ضعیف ہے۔ ابن معین سے ابن محرز، دارمی، ابن طھمان، ابن ابی خیمثمہ نے بھی تضعفی اقوال نقل کئے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے موسوعہ اقوال ابن معین
[2] الکفایۃ :۱/۲۲، و مقدمہ ابن الصلاح: ۱/۱۲۴ ،عبارت یہ ہے : ابن ابی خیثمہ کہتے ہیں کہ : "قلت ليحيى بن معين: إنك تقول: فلان ليس به بأس، وفلان ضعيف؟ قال: إذا قلت لك: ليس به بأس، فهو ثقة، وإذا قلت لك: هو ضعيف، فليس هو بثقة، ولا يُكتب حديثه"