کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 93
ایک ہی راوی کے بارے میں الجرح والتعدیل مختلف ہو، تو دیکھنا چاہئے کہ اس راوی کے بارے میں دوسرے ائمہ جرح وتعدیل کیا کہتے ہیں، اب اگر اس کے بارے میں تعدیل کے الفاظ زیادہ ہیں تو اس راوی کی تضعیف قبول نہیں کی جائےگی۔ وہ مثال بھی دیتے ہیں ، کہ مبارک بن فضالہ اور ربیع بن صبيح یہ دونوں مقبول ہیں ۔لیکن یحی بن معین رحمہ اللہ سے ان کے بارے میں جرح منقول ہے۔{[1]اب یحی بن معین رحمہ اللہ کی جرح کا حکم جاننے کے لئے امام یحی کے معاصر ین امام احمد بن حنبل ، امام علی بن مدینی وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم ، انہوں نے ان کے بارے میں کیا کہا ہے؟ اب جو مفہوم انہوں نے لیا ہے اس کو مقدم سمجھا جائے گا۔(کیونکہ وہ تعداد میں زیادہ ہیں۔ ) اس تنہا قول کو قابل قبول نہیں جانا جائے گا۔
تطبیق و توفیق کی چوتھی صورت:
تطبیق و توفیق کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ایک قول تجریح کا ہو، باقی اس کی توثیق کرتے ہیں ایسی صورت میں اکیلے محدث کی تضعیف قابل قبول نہیں ہے۔ جنہوں نے توثیق کی ہے اس کو ترجیح دی جائے گی۔ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے جرح و تعدیل میں کہ بعض افراد ایسے ہوتے ہیں ،
[1] الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم میں ربیع بن صبیح کے ترجمے میں ہے کہ ابن ابی خیثمہ ابن معین سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے ضعيف الحديث کہا۔ اور مبارک بن فضالہ کے ترجمے میں ربیع بن صبیح کے بارے میں یہ قول موجود ہے کہ عثمان بن سعید نے ابن معین سے لیس بہ باس نقل کیا۔
اور مبارک بن فضالہ کے بارے میں ہے کہ عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ابن معین سےمبارک بن فضالہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ضعیف الحدیث ۔ یہ نقل کرنے کے بعد آخر میں ابن ابی حاتم فرماتے ہیں : ’’اختلفت الرواية عن يحيى بن معين في مبارك بن فضالة والربيع بن صبيح واولاهما ان يكون مقبولا محفوظا عن يحيى ما وافق احمد وسائر نظرائه‘‘
گویا کہ ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے مختلف اقوال ذکر کرکے ان کے مابین تطبیق دینے کے لئے دوسرے معدلین کی کثرت کو سامنے رکھا ہے۔