کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 92
پسندیدہ ہیں ، تو فرمانے لگے: سعید اوثق والعلاء ضعیف ، [1]اب دیکھیں! ایک جگہ کہا: علاء لیس به باس ،لیکن جب سعید مقبری کے مقابلے میں بات آئی ہے، تو علاء کو ضعیف کہہ رہے ہیں،اب یہ ضعف توثیق کے مقابلے میں ہے، اس کو تضعیف نسبی کہتے ہیں۔ یعنی علاء کی یہ تضعیف سعید المقبری کے مقابلے میں ہے،ورنہ جب مقابلے کے بغیر ان سے سوال کیا گیا تو فرمایا وہ ’’لیس به باس ‘‘ ہے۔ اسی طرح عبدالرحمان بن سلیمان کی، امام یحی بن معین، امام نسائی، امام ابوزرعہ وغیرہ رحمۃ اللہ علیہم نے توثیق کی ہے۔[2] لیکن بعض نے اس میں کلام بھی کیا ہے، اب یہ کلام کس تناظر میں ہے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صاف فرمایاہے: بعض نے ان پر ضعف کا جو حکم لگایا ہے، یہ ثقات کے مقابلے میں لگایا ہے،ورنہ فی اصلہ وہ ثقہ ہے،جس طرح کہ باقی نے ان کو ثقہ کہا ہے۔ جرح و تعدیل میں جس وقت اختلاف ہوتو اختلاف کو حل کرنے کی یہ دو صورتیں ذکر کی گئی ہیں۔ تطبیق و توفیق کی تیسری صورت : اسی طرح تعارض الجرح والتعدیل میں تطبیق کی ایک صورت امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے الجرح والتعدیل میں ذکر کی ہے۔ یہ عموماً جو اس موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں یہ بات نہیں ہے۔ کہ جب
[1] امام ابن معین سے علاء کے بارے میں بعض تضعیفی جیسے لیس حدیثہ بحجۃ ،لیس بالقوی ، اقوال بھی ملتے ہیں ، ان کی حیثیت کو جاننے کے لئے استاد محترم کی شہرہ آفاق کتاب توضیح الکلام صفحہ نمبر: ۱۶۷،۱۶۸ کا مطالعہ کیا جائے۔ [2] عبدالرحمان بن سلیمان کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت یہ ہے: ’’ وثقه بن معين والنسائي وأبو زرعة والدارقطني وقال النسائي مرة ليس به بأس ومرة ليس بالقوي وقال ابن حبان كان يخطئ ويهم كثيرا مرض القول فيه أحمد ويحيى وقالا صالح وقال الأزدي ليس بالقوي عندهم وقال بن عدي هو ممن يعتبر حديثه ويكتب قلت تضعيفهم له بالنسبة إلى غيره ممن هو أثبت منه من أقرانه وقد احتج به الجماعة سوى النسائي ‘‘ (ہدی الساری: ۲/۱۱۰۹، دار طیبہ )