کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 91
آپ حیران ہوں گے کہ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ علم الرجال شاذکونی سے جاکے سیکھو ،[1] لیکن خود امام احمد رحمہ اللہ ،شاذکونی کو ضعیف بھی قرار دیتے ہیں ۔[2] یعنی ایک فن کاوہ آدمی ہے اور دوسرے فن کا وہ آدمی نہیں ہے، یہ تو اللہ کی مرضی ہے، کہ اللہ ایک آدمی کو متعدد فنون سے نوازدے ، اور بہت سی صفات سے اسے بار آور فرمائے۔ یہ تو اللہ رب العزت کی عطا ہے۔
بہرحال راویوں میں انسانی تقاضوں کے مطابق اکثر و بیشتر یہ تفریق پائی جاتی ہے،کہ ایک شخص عادل ہے لیکن ضبط مجروح ہے، یا عدالت مجروح ہے اور ضبط کی تعدیل کی گئی ہے۔ تو ایسے اختلاف میں یہی یکھنا چاہئے کہ وہ جرح یا تعدیل عدالت کی نسبت سے ہے یا ضبط کی نسبت سے ہے۔
تطبیق و توفیق کی دوسری صورت :
بسا اوقات تضعیف یا توثیق دونوں ہی نسبی اعتبار سے ہوتی ہے، نسبی کی ایک صورت یہ ہےکہ ایک ہی صفت میں تین چار راویوں کا ذکر کردیا جائے، اور کہہ دیا جائے کہ یہ راوی ثقہ ہے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ راویوں کو آپس میں تقابل کی صورت میں پیش کیا جائے، مثال کے طور علاء بن عبدالرحمان ہیں ،امام یحی بن معین رحمہ اللہ نے ان کے بارے میں کہا کہ لیس به باس [3]لیکن عثمان دارمی یہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا: ھو احب الیک او سعید المقبرییعنی : علاء بن عبدالرحمان آپ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہیں یا سعید المقبری زیادہ
[1] عمرو الناقد کہتے ہیں شاذکونی جب بغداد آیا تو احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مجھے کہا : ’’ اذھب بنا الی سلیمان نتعلم منہ نقد الرجال ‘‘ (تذکرۃ الحفاظ : ایضاً)
[2] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں کہا : ’’ ذَاك الخائب‘‘ (العلل و معرفۃ الرجال : ۲۹۰۰) ، سیراعلام النبلاء میں ہے کہ ’’ جالس حماد بن زيد، ويزيد بن زريع، وبشر بن المفضل، فما نفعه الله بواحد منهم‘‘ (سیر اعلام النبلاء : ۱۰/۶۸۱)
[3] موسوعہ تاریخ ابن معین : ۲/۲۳۹