کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 87
لیکن کثرت سے ضعیف،متروک اورمنکر راویوں سے روایت کرنا، یہ باعث عیب ہے۔ مثلاً ثابت بن عجلان کے بارے میں امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا یتابع علی حدیثہ اس کی حدیث کی متابعت نہیں کی جاتی۔ [1]ابن القطان رحمہ اللہ فرماتےہیں : ذلک لا یضرہ الا اذا کثر منہ روایۃ المناکیر و مخالفۃ الثقات۔ یعنی کسی کا اس کومتابعت نہ کرنا اس کو نقصان نہیں دیتا۔ کثرت سے منکر روایتیں اور ثقات کی مخالفتیں کرے تو پھر اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے۔ [2](صرف مؤید نہ ہونے کی وجہ سے لا یتابع کہنے سے اس کی روایت ناقابل قبول نہیں ہوگی بلکہ یہ اس وقت ہے کہ جب کثرت سے اس عمل کا ارتکاب کرتاہے) یا جس طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے احمد بن عتّاب کے بارے میں کہا ہے: ماکل من روی المناکیر یضعف۔ ہر وہ راوی جو مناکیر بیان کرے یہ نہیں کہ وہ ضعیف ہے[3] ثقات سے منکر روایتیں بھی موجود ہیں ،ثقات ضعیف سے بھی روایت کرتے ہیں ،شعبہ رحمہ اللہ ضعیف سے بھی روایت کرتے ہیں اور بھی کئی ثقہ راوی ہیں جو ضعیف سے روایت کرتے ہیں لیکن یہ باعثِ نقد اور باعث ِہدف اس وقت ہے ،جس وقت وہ کثرت سے مناکیر روایتیں بیان کرتے ہوں ،کثرت سے مجاہیل و ضعفاء سے روایت کرتا ہو،تو پھر اس راوی کی حیثیت وہ نہیں رہتی جو ثقہ اور اثبات راویوں کی ہوتی ہے۔
[1] كتاب الضعفاء: ۱/۱۹۳ ترجمہ نمبر۲۱۹، دارالصمیعی [2] تهذيب التهذيب: ۱/۲۶۶ عبارته ورد ذلك عليه ابن القطان وقال في قول عقيلي: " لا يتابع عليه" إن هذا لا يضر إلا من لا يعرف بالثقة, وأما من وثق فانفراده لا يضره.بیان الوھم والایھام ، ۵/۳۶۲، ترجمہ نمبر: ۲۵۳۵، و عبارتہ : و ھذا من العقیلی تحامل علیہ ، فانہ یمس بھذا من لا یعرف بالثقۃ ، فاما من عرف بھا، فانفرادہ لایضرہ، الا ان یکثر ذلک منہ۔ [3] ميزان الاعتدال:۱/۱۴۵، ترجمہ نمبر ۵۶۲، احمد بن عتاب المروزی