کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 74
میں لے آتے ہیں ۔کیونکہ جب دوسرے راوی بھی اس کو بیان کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں اس کو گڑ بڑنہیں ہے۔ اس شبہ کا ازالہ ہوجاتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اختلاط کے بعد بھی لی ہیں لیکن چناؤ کیا ہےکہ اگر اس کی متابعات و شواہد ہیں، تو وہ روایت لے لی ہے ۔[1]
امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ترمذی رحمہ اللہ سوال کرتے ہیں کہ آپ محمد بن عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ (صدوق ، سئی الحفظ )کی روایت کیوں نہیں لیتے ؟ امام بخاری رحمہ اللہ نے جواب دیا: کہ میں اس کی صحیح و ضعیف روایت کا فرق نہیں کرسکا۔[2]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جن پر سوء الحفظ کا عارضہ ہو اورجن کی روایات میں انہوں نے انتقاء نہیں کیا ایسے راوی کی روایت نہیں لیتے، تو جو مختلط ہے اس کی روایت کیسے لیں گے؟؟ ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی صحیح الاحسان کے مقدمے میں کہا ہےکہ میں کسی مختلط سے روایت
[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری کے مقدمہ میں اسماعیل بن ابی اویس کے ترجمے کے تحت لکھتے ہیں: ’’ قلت وروينا في مناقب البخاري بسند صحيح أن إسماعيل أخرج له أصوله وأذن له أن ينتقي منها وأن يعلم له على ما يحدث به ليحدث به ويعرض عما سواه وهو مشعر بأن ما أخرجه البخاري عنه هو من صحيح حديثه لأنه كتب من أصوله وعلى هذا لا يحتج بشيء من حديثه غير ما في الصحيح من أجل ما قدح فيه النسائي وغيره إلا أن شاركه فيه غيره فيعتبر فيه‘‘ (فتح الباری :۱/۵۵۵ )
اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر ثناءالناس کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ کا قول نقل کیا : ’’كان إسماعيل بن أبي أويس إذا انتخبت من كتابه نسخ تلك الأحاديث لنفسه وقال هذه الأحاديث انتخبها محمد بن إسماعيل من حديثي‘‘ (فتح الباری: ۱/۶۷۴) اس قول سے معلوم ہوا کہ اسماعیل بن ابی اویس جس کے بارے میں حافظ نے تقریب میں کہا ہے کہ ’’صدوق أخطأ في أحاديث من حفظه‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسکی لکھی ہوئی احادیث کو لیا اور اس میں سے بھی انتخاب کیا۔
[2] ترمذی، العلل الکبیر