کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 73
انہوں نے اختلاط سے پہلے روایت کیں ۔[1]بلکہ النکت میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی یہی بات کہہ دی ہے[2] لیکن امرِ واقع اس کے بالکل برعکس ہےجیسا کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ہدی الساری میں اس کی وضاحت کی ہے۔ جن کی روایت اختلاط کے بعد کی ہیں ۔ مثال کے طور پر ابن ابی عدی یا محمد بن عبداللہ انصاری ہیں ،یا روح بن عبادہ ہیں۔ ان کی روایات بخاری و مسلم میں ہیں اور اختلاط کے بعد کی ہیں ،لیکن حافظ کہتے ہیں کہ امام بخاری اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ ، ان رواۃ کی اس دور(اختلاط کے بعد والے دور ) کی بیان کی ہوئی روایات کا انتخاب کرتے ہیں کہ وہ روایات جس کے شواہد یا متابعات موجود ہیں، اس کی روایت صحیح بخاری و صحیح مسلم
[1] علامہ ابن الصلاح کی عبارت ان کی کتاب معرفۃ علوم الحدیث المعروف مقدمۃ ابن الصلاح میں ہے: ’’ واعلم أن من كان من هذا القبيل محتجا بروايته في " الصحيحين " أو أحدهما فإنا نعرف على الجملة أن ذلك مما تميز وكان مأخوذا عنه قبل الاختلاط، والله أعلم. ‘‘ ( مقدمہ ابن الصلاح : ۲۴۱) امام نووی کی عبارت ان کی کتاب التقریب والتیسیر میں ہے : ’’ومن كان من هذا القبيل محتجاً به في الصحيح فهو مما عرف روايته قبل الاختلاط، والله أعلم.‘‘(التقریب والتیسیر للنووی ) [2] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:’’واحترزت بقولي أن يكون سالما من العلل بما إذا احتجا بجميع رواته على صورة الاجتماع إلا أن فيهم من وصف بالتدليس أو اختلط في آخر عمره، فإنا نعلم في الجملة أن الشيخين لم يخرجا من رواية المدلسين بالعنعنة إلا ما تحققا أنه مسموع لهم من جهة أخرى ، وكذالم يخرجا من حديث المختلطين عمن سمع منهم بعد الاختلاط إلا ما تحققا أنه من صحيح حديثهم قبل الاختلاط. فإذا كان كذلك لم يجز الحكم للحديث الذي فيه مدلس قد عنعنه أو شيخ سمع ممن اختلط بعد اختلاطه، بأنه على شرطهما، وإن كانا قد أخرجا ذلك الإسناد بعينه.إلا إذا صرح المدلس من جهة أخرى بالسماع وصح أن الراوي سمع من شيخه قبل اختلاطه، فهذا القسم يوصف بكونه على شرطهما أو على شرط أحدهما ‘‘ (النکت:النوع الاول، الصحیح)