کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 64
اسی طرح عبداللہ بن محمد بن عجلان کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے التاریخ الکبیر میں اس پر کوئی جرح و تعدیل نہیں کی۔ [1]لیکن کتاب الضعفاءمیںلایتابع علیهکہا۔[2]
اسی طرح عبداللہ بن معاویہ بن عاصم کے بارے میں التاریخ الکبیر میں سکوت کیا۔[3]لیکن التاریخ الصغیرجو اب التاریخ الاوسط کے نام سے بھی چھپی۔ اس میں منکر الحدیث قرار دیا۔ [4]
اسی طرح عبداللہ بن یعلی النہدی کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نےالتاریخ الکبیر میں سکوت اختیار کیا[5]اور ضعفاء[6]میں کہا کہ ’’فیہ نظر‘‘ جوکہ امام بخاری کی سخت جرح ہے ۔[7]
بہرحال دونوں اعتبار سے جب ہم قاعدے کا جائزہ لیتے ہیں امام بخاری اور ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ
[1] تاریخ کبیر۵/۸۸، عبداللہ بن محمد بن عجلان مولی فاطمہ بنت عنبسۃ ، دارالکتب العلمیۃ
[2] کتاب الضعفاء
[3] تاریخ کبیر میں اس کے لئے دو ترجمے قائم کئے ،ایک جگہ (۶۳۱) ۵/۲۰۰، یہاں سکوت کیا ہے ،اور دوسرا ترجمہ ( ۶۶۳، ۵/۲۰۹) دوسرے والے ترجمے میں فرماتے ہیں : ’’بعض احادیثہ منکر ‘‘ لیکن اس سے بھی ثقاہت کی تعیین نہیں ہوتی اور تاریخ الاوسط میں میں منکر الحدیث کہا جو کہ متروک کے درجے کی جرح ہے۔ میزان میں حافظ ذہبی نے بھی منکر الحدیث نقل کیا ہے ، اب منکر الحدیث اور بعض احادیثہ منکر میں بڑا فرق ہے۔
[4] ریخ الاوسط :۴/۸۷۴ ، ترجمہ نمبر : ۱۳۸۰، مکتبۃ الرشد
[5] تاریخ الکبیر : ۵/۱۳۱، دارالکتب العلمیۃ
[6] الضعفاء
[7] امام بخاری رحمہ اللہ جس راوی کے بارے میں فیہ نظر کہیں تو وہ راوی اکثر طور پر متروک کے درجے کا ہوتا ہے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ سیر میں امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ’’ أرجو أن ألقى الله ولا يحاسبني أني اغتبت أحدا‘‘ کےبعد فرماتے ہیں :’’قلت: صدق -رحمه الله- ومن نظر فى كلامه في الجرح والتعديل علم ورعه في الكلام في الناس، وإنصافه فيمن يضعفه فإنه أكثر ما يقول: منكر الحديث سكتوا عنه فيه نظر ونحو هذا، وقل أن يقول: فلان كذاب أو كان يضع الحديث حتى إنه قال: إذا قلت فلان في حديثه نظر فهو متهم، واه وهذا معنى قوله: لا يحاسبني الله أني اغتبت أحدا، وهذا هو والله غاية الورع۔‘‘(سیر اعلام النبلاء)