کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 62
ارتفاعِ جہالت سے متعلق بعض غیر صحیح اصول
۱۔امام بخاری اور امام ابن ابی حاتم کا سکوت:
بعض کہتے ہیں کہ وہ راوی جن کے بارے میں امام بخاری یا امام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتابوں میں ذکر کردیں اورخاموشی اختیار کریں اور کوئی جرح یا توثیق نہ کریں ۔بعض نے یہ سمجھا ہے کہ ان کی خاموشی اس راوی کی توثیق وتعدیل ہے۔ اگر جرح ہوتی تو بیان کرتے۔[1]لیکن یہ
[1] مولاناظفر احمد تھانوی قواعد علوم الحدیث میں لکھتے ہیں: ’’كل من ذكره البخاري في "تواريخه"، ولم يطعن فيه فهو ثقة، فإن عادته ذكر الجرح‘‘(قواعد فی علوم الحدیث: ۲۲۳) یعنی : ہر وہ راوی جسے امام بخاری a اپنی تاریخ میں ذکر کردیں اور اس پر کوئی طعن نہ کریں تو وہ ثقہ ہے اس لئے کہ ان کی عادت یہ ہے کہ وہ جرح کا ذکر کرتے ہیں۔
اور مولانا ظفر احمد تھانوی صاحب نے یہی مؤقف ابن ابی حاتم a کے بارے میں اپنایا چنانچہ وہ لکھتے ہیں : صنیعہ یدل علی ان سکوت ابن ابی حاتم عن الجرح توثیق کسکوت البخاری۔۔(قواعد فی علوم الحدیث :۳۵۸)
اسی طرح اس حوالے سے الرفع والتکمیل کی تحقیق میں شیخ ابوغدۃ عبدالفتاح نے تفصیلی بحث کی ہے۔ (صفحہ نمبر: ۲۳۰، طبع مکتبہ شان اسلام، پشاور)
سید بدیع الدین شاہ الراشدی a نے نقض قواعد فی علوم الحدیث میں اس اصول کا رد کیاہے۔ (دیکھئے نقض قواعد: ۳۱۳) (بقیہ گزشتہ صفحہ ) شیخ ابو غدہ نے الرفع والتکمیل کے حاشیہ میں لکھا ہے: ’’ ان مثل البخاری ، او ابی زرعۃ، او ابی حاتم ، او ابنہ ، او ابن یونس المصری الصدفی ، او ابن حبان ، او ابن عدی، او الحاکم الکبیر ابی احمد، او ابن النجار البغدادی، او غیرھم ممن تکلم او الف فی الرجال ، اذا سکتوا عن الراوی الذی لم یجرح و لم یات بمتن منکر: یعد سکوتھم عنہ من باب التوثیق والتعدیل، ولا یعد من باب التجریح والتجھیل، و یکون حدیثہ صحیحاً او حسناً او لا ینزل عن درجۃ الحسن اذا اسلم من المغامز، واللہ تعالیٰ اعلم ‘‘(۲۴۶)