کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 6
ہیں۔ یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ نبی کریم کے فرامین مبارکہ اور احادیث شریفہ تک رسائی کا واحد ذریعہ وہ ناقلین حدیث ہیں جنہوں نے نسل در نسل احادیث کو سنا اور آگے پہنچایا یہاں تک کتب احادیث کا ایک ذخیرہ تیار ہوگیا اور پھر روایت حدیث کے لئے کتب پر ہی اعتماد ہونے لگا، لیکن حدیث کی صحت و ضعف کا دارومدار ان راویوں پر ہی رہا جنہوں نے ان احادیث کو روایت کیا ، لہذا راویوں کے حالات کی معرفت ، صدق وکذب کی خبر اور حفظ و ضبط کی جانچ ہی احادیث کے صحیح و ضعیف ہونے کا معیار قرار پائی ۔ محدثین کرام نے راویوں کے حالات کی جانچ اور ان پر حکم لگانے کے لئے جو اصول مرتب کئے انہیں’’ علم الجرح والتعدیل ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، اور علم الجرح والتعدیل کو علم حدیث کا آدھا علم قرار دیا جاتا ہے،کیونکہ یہ ایک ایسا عظیم الشان علم ہے جس کی دقت ، باریک بینی کے ساتھ ساتھ وسعت اور احاطہ کی مثال دنیا کا کوئی بھی انسائیکلو پیڈیا پیش کرنے سے عاجز ہے، اس علم کی گہرائی ، لطافت اور صدیوں پر محیط ہزاروں رایوں کے مکمل احاطہ کو دیکھ انسان مبہوت رہ جاتا ہے ۔یقینا یہ علم اللہ تعالی کی توفیق کے بعد محدثین کرام کی ان تھک محنت اور جاں گسل مشقت کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنی زندگیاں اس علم کی بارآوری میں کھپادیں حتی کہ یہ علم ایک ثمرمند درخت کی صورت اختیار کرگیا اور حدیث شریف کے لئے محافظ بن گیا۔ عصر حاضر میں ہم جیسے نالائق طلبہ کی پست ہمتی کے سبب یہ علم آہستہ آہستہ ہمارے لئے اجنبی بنتا جارہا ہے اور طلبہ میں اس کا رجحان اور رغبت ماند پڑتی جارہی ہے ، یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام کے حدیث پر حملے تیز سے تیز تر ہوتے جارہے ہیں ، اس صورتحال کے پیش نظر ’’ المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر ‘‘ نے یہ ارادہ کیا کہ طلبہ کو اس علم کی طرف راغب کرنے اور اس علم سے روشناس کرانے کے لئے"اصول جرح وتعدیل" کے عنوان سے ایک علمی دورہ منعقد کیا جائے ، اس علمی دورہ کے لئے ہم نے محدث العصر فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ سے درخواست کی کہ وہ