کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 59
نے بھی اس طرح کی بات کہی ہے۔[1] اسی طرح علامہ صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں :وقدیطلقھا کثیر من المتعنتین فی الجرح علی من یھم و یخطئی [2]یعنی جو راوی وہم اور خطا کرجاتا ہے اس راوی پر بھی کذب کا اطلاق کرتے ہیں۔ تو جب کذب کی بات آئی ہے یہاں ہم نے اس کی یہ تفصیل بھی بتا دی ہے کہ ہمیں دیکھنا ہے کہ وہ کس معنی میں استعمال ہوا ہے ،متہم بالکذب کے بارے میں یاخطا کی وجہ سے کہا گیا ۔ اسی طرح کذب کا اطلاق ،بدعت پر بھی ہوجاتا ہے جیساکہ یعقوب فسوی نے معرفۃ التاریخ میں بھی فرمایا ہے : و قد یراد به بدعة الراوی [3]راوی کی بدعت کی وجہ سےاس منحرف راوی پر کذب کا اطلاق ہوا ہے۔ یعنی وہم اور خطا ہی نہیں بلکہ بدعت کے تناظر میں بھی اسے کذاب کہا گیا ہے۔ اس لئے کذاب سے ہمیشہ وضاع یا متہم بالکذب ہی مراد نہ لیا جائے بلکہ یہ امور بھی دیکھنے چاہییں۔ ۳۔عدالت کے مجروح ہونے کا تیسرا سبب فسق فسق کی دو نوعیتیں ہیں (1) مرتکب کبیرہ ،کبیرہ گناہ وہ ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے وہ جہنمی ہیں یا جن پر نبی نےلعنت فرمائی ہے۔ وہ سارے کے سارے کبیرہ گناہ ہیں۔ کبائر
[1] حافظ ذہبی فرماتے ہیں : ’’فأما قول الشعبي: الحارث كذاب، فمحمول على أنه عنى بالكذب الخطأ، لا التعمد، وإلا فلماذا يروي عنه ويعتقده بتعمد الكذب في الدين ‘‘ (سیر اعلام النبلاء: ۴/۱۵۳) [2] الروض الباسم فی الضب عن سنۃ ابی القاسم :۱/۱۶۶، الاحادیث المتکلم فیھا فی الصحیحین، النوع الثانی [3] کتاب المعرفۃ والتاریخ