کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 58
کذاب کے لفظ کا ’’خطاء ‘‘کے معنی میں استعمال :
کذاب کا لفظ اور متہم بالکذب کا لفظ اہل حجاز کے یہاں بسا اوقات خطا پر بھی بولا جاتا ہے۔ جہاں کذاب کا لفظ آپ دیکھیں تو یہ نہ سمجھ لیں کہ وہ راوی کذاب ہے بلکہ اس کی تفصیل اور نوعیت معلوم کرنی چاہئے۔ اس لئے کہ خطا اور غلطی پر اہل حجاز بالخصوص اور ائمہ جرح والتعدیل علی الاطلاق اس کا استعمال کرتے ہیں۔ بلکہ ایک حدیث میں بھی یہ مسئلہ موجود ہے۔حاملہ متوفی عنھا زوجھا کی عدت کیا ہے؟ بعض نے کہا کہ ابعد الاجلین (یعنی دو مدتوں میں سے لمبی والی مدت)گزارے۔ یہی واقعہ نبی ﷺ کے دور میں ہوا اور ابوالسنابل نے یہی بات کہی، مسند احمد میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: کذب ابوالسنابل۔[1]اب یہاں کذب کا معنیٰ جھوٹ بولنا نہیں بلکہ خطا کے معنی پر بولا گیا ہے۔ اور یہ کذب کا لفظ نکالیں تاج العروس میں انہوں نے وضاحت کی ہے کہ [أهل الحجاز، يقولون: كذبت بمعنى أخطأت] یعنی : اس کا اطلاق ائمہ کے نزدیک اہل حجاز کے نزدیک خطا اور وہم پر بھی ہوتا ہے۔ [2]اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ
[1] مسند احمد ، حديث نمبر ۴۲۷۳, (۷/۳۰۵) مؤسسة الرسالة، عن عبد الله بن مسعود، نسخہ موسوعہ مع التحقیق والتخریج للشیخ شعیب الارناووط
[2] صاحب تاج العروس ابن الانباری کا قول پیش کرتے ہیں کہ کذب پانچ اقسام کی طرف منقسم ہوتا ہے،اور پھر تیسرا معنی یہی بتلاتے ہیں کہ’’الثالث بمعنى الخطأ وهو كثير في كلامهم‘‘ پھر اس تیسرے معنی کا استعمال بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’وعلى الثالث خرجوا حديث صلاة الوتر (كذب أبو محمد) ، أي: أخطأ، سماه كاذبا، لاءنه شبيهه في كونه ضد الصواب، كما أن الكذب ضد الصدق وإن افترقا من حيث النية والقصد؛ لاءن الكاذب يعلم أن ما يقوله كذب، والمخطىء لا يعلم. وهاذا الرجل ليس بمخبر، وإنما قاله باجتهاد أداه إلى أن الوتر واجب، والاجتهاد لا يدخله الكذب، وإنما يدخله الخطأ وأبو محمد الصحابي: اسمه مسعود بن زيد.وفي التوشيح: أهل الحجاز، يقولون: كذبت بمعنى أخطأت، وقد تبعهم فيه بقية الناس۔ ‘‘ (تاج العروس : ۴/۱۲۹، مادہ کذب)