کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 53
اسی طرح امام ابن القطان رحمہ اللہ نے بیان الوھم والایھام میں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں بھی کہی ہے،[1]’’فی تصحیح الترمذی ایاہ توثیقھا۔‘‘راوی کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس روایت کی تصحیح کی ہےاور یہ تصحیح اس راوی کی ان کے نزدیک توثیق کی دلیل ہے۔
مستخرج کی روایت ، راوی کی توثیق :
مستخرجات کی روایات ،بشرطیکہ وہ مستخرج زوائد پر مبنی نہ ہو،اس مستخرج کی روایت کے راوی بھی توثیق اور تعدیل کےلئے قرینہ ہونگے ۔لیکن اگر وہ زوائد پر مبنی ہو جیسا کہ ابی عوانہ ہے، ابی عوانہ میں بہت سی روایات صحیح مسلم سے زائد بھی ہیں۔اسی طرح ابو علی النیسابوری رحمہ اللہ کی مستخرج میں بھی زوائد ہیں۔[2] اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ زوائد روایات میں ایسے راوی بھی موجود ہیں جو قابل اعتبار نہیں ہیں۔[3]البتہ وہ مستخرج جو صحیح روایت کے حوالے سے ہو وہ راوی کی توثیق کے لئے قرینہ بن جائے گی۔
[1] بیان الوھم والایھام :۲۵۶۲،۵/ ۳۹۴، نصب الرایۃ :باب العدۃ، ۳/۲۶۴
[2] ابو علي الحسين بن محمد بن احمد بن محمد بن الحسين بن عيسى بن ماسرجس النيسابوري، (المتوفی ۳۶۵)حافظ ذہبی رحمہ اللہ سیر میں ان کے ترجمے میں لکھتے ہیں :’’ الحافظ الكبير، الثبت، الجوال، الإمام‘‘ (سیر اعلام النبلاء) ان کی مستخرج صحیحین پر ہے۔
[3] ۱۴۷، ۱۴۸ طبع مکتبۃ الفرقان سنہ ۲۰۰۳ء