کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 52
کیا امام ترمذی رحمہ اللہ کی تحسینِ حدیث اور تصحیحِ حدیث ،رواۃِحدیث کی توثیق ہے؟
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تعجیل المنفعہ میں عبداللہ بن عبید الدیلی کے ترجمے میں کہہ دیا ہے کہ[قال الترمذي حسن غریب و ھذا یقتضي انہ عندہ صدوق معروف ] [1]یعنی: امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس (حدیث کو جس کی سند میں یہ راوی موجود ہے) کو حسن غریب کہا ہے اور اس کا تقاضہ ہے کہ عبداللہ بن عبید الدیلی امام ترمذی رحمہ اللہ کے یہاں صدوق معرو ف ہیں۔گویا کہ جس طرح تصحیح کے بارے میں ہے، ویسے ہی تحسین کے بارے میں بھی ہے۔لیکن یہ بات درست نہیں ہے، اس لئے درست نہیں ہے کہ امام ترمذی رحمہ اللہ کے نزدیک حسن کی تعریف دوسرے محدثین سے مختلف ہے، امام ترمذی رحمہ اللہ روایت کی تحسین، متابعات اور شواہد کے طور پر بھی کردیتے ہیں۔[2]اس لئے ان کے یہاں روایت کی تحسین راوی کی توثیق نہیں، البتہ ان کی تصحیح ،راوی کی توثیق کی دلیل ہے۔
لہذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے گو کہہ دیا ہے ،لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ کے اپنے اصول کے تناظر میں امام ترمذی رحمہ اللہ کی تنہا حدیث کی تحسین راوی کی توثیق کی دلیل نہیں ہوگی۔
[1] تعجیل المنفعۃ:عبداللہ بن عبید الدیلی کا ترجمہ دیکھیں ۔
[2] اس کی مثال کے طور پر یہ حدیث ہے: ’’ عن أبي حاتم المزني قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه، إلا تفعلوا تكن فتنة في الأرض وفساد»، قالوا: يا رسول الله، وإن كان فيه؟ قال: «إذا جاءكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه»، ثلاث مرات‘‘ (جامع ترمذی: ۱۰۸۵) امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’هذا حديث حسن غريب‘‘ حالانکہ اس کی سند میں ایک راوی عبداللہ بن ھرمز راوی ہے،جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ضعیف من السادسۃ کہتے ہیں۔ اس حدیث سے پہلے ہی اسی مفہوم کی حدیث سیدنا ابوہریرہ سے لائے اور لکھاکہ ’’وفي الباب عن أبي حاتم المزني، وعائشة‘‘ گویاکہ ابو حاتم المزنی کی مذکورہ روایت کی تحسین بر بنائے شاہد یا متابعت کے ہے۔