کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 51
کچھ خطرات ہیں۔[1]
اگر امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا یہی اصول ہوتا جو ابن حبان رحمہ اللہ کا ہے تو صحیح ابن خزیمہ میں بارہا مقامات پر یہ بات نہ کہتے۔ اس لئے ابن خزیمہ رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان کے مقدمے میں جو کہا ہے، وہ محل نظر ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود کہتے ہیں کہ عبداللّٰه بن عبدالرحمان اخرجه ابن خزیمة فی صحیحه یدل علی انه ثقة عندہ ‘‘ اور یہی تبصرہ عبداللہ بن عتیبہ کے بارے میں بھی کیا ہے۔[2] اور یہی بات عبدالرحمان بن خالد کے ترجمے میں کہی کہ ان سے ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے روایت لی ہے اور یہ دلیل ہے کہ ان کی توثیق ہے۔[3]
یہ ساری باتیں اس بات کی تردید کرتی ہیں جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان کے مقدمے میں ان کی طرف منسوب کی ہیں۔
[1] اس کی مثال کے لئے لسان المیزان ہی میں ہے قاسم بن عبدالرحمن الانصاری کے ترجمے میں حافظ ابن خزیمہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس کے بارے میں کہا ہے فی القلب من القاسم۔ اور اگلے ہی ترجمہ ایک اور قاسم بن عبدالرحمان عن ابیہ عن ابی ھریرۃ کے نام سے قائم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی انصاری ہے جس کا ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ یہ مجہول ہے۔ اسے ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے۔ (لسان المیزان: ترجمہ نمبر : ۶۷۱۹، ۶۷۲۰۔صفحہ ۶/۴۳)
اسی طرح لسان المیزان میں حملة بن عبد الرحمن ایک راوی کے بارے میں لکھتے ہیں :’’قال ابن خزيمة لست أعرفه وذكره ابن حبان في الثقات‘‘ (لسان المیزان:ترجمہ نمبر: ۳۰۳۸، ۳/۱۹۴)
اسی طرح ایک راوی عمروبن حمزة العبسي کے بارے میں حافظ رحمہ اللہ خود لکھتے ہیں: قال ابن خزيمة لا أعرفه بعدالة ولا جرح وذكره ابن أبي حاتم ولم يذكر فيه جرحا ولا تعديلا وذكره ابن حبان في الثقات (لسان المیزان: ترجمہ نمبر: ۶۳۴۵، ۵/۳۵۰)
[2] تهذيب التهذيب: (۲/۳۸۱)، عبد الله بن عتيبة بن أبي سفيان
[3] تعجیل المنفعۃ :۲۴۸، ترجمہ عبدالرحمان بن خالد