کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 50
’’ فإن خُرِّج حديثُ هذا في "الصحيحين"، فهو مُوَثَّق بذلك. وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة، فجيِّدٌ أيضاً ‘‘[1] جس سے امام بخاری اور مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے روایت لی، اس کی توثیق ہوگئی۔ لیکن اگر اس کی روایت کو ابن خزیمہ، ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی صحیح قرار دیا تو وہ روایت جید ہوگی۔ مثلاً عبداللہ بن عبدالرحمان کے ترجمے میں ابن حجر رحمہ اللہ ،تہذیب التہذیب میں کہتے ہیں: ’’ اخرج لہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ یدل علی انہ عندہ ثقة‘‘[2] کیا توثیق کے حوالے سے ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا مؤقف ابن حبان رحمہ اللہ جیسا ہے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان کے مقدمے میں یہ بات کہہ دی ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے جس طرح ثقہ راوی کے بارے میں ایک اصول بیان کیا ہے، یہ اصول انہوں نے ابن خزیمہ رحمہ اللہ سے لیا ہے اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا بھی یہ مؤقف ہے کہ جب ایک راوی سے ثقہ روایت کرنے والا ہو اور کسی نے اس پر جرح ونقد نہ کیا ہو تووہ راوی ثقہ ہے ،جیسا کہ ابن حبا ن رحمہ اللہ کا اصول ہے۔[3]حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی طرف یہ انتساب کرد یا ۔لیکن اگر آپ صحیح ابن خزیمہ کا مطالعہ فرمائیں، تو کئی ایک مقامات پرآپ یہ دیکھیں گے کہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا ہے کہ’’ لم اعرف فیہ جرحا ولا تعدیلا، و فی القلب منہ شئ ‘‘ میں نے اس راوی کے بارے میں کوئی جرح و تعدیل نہیں دیکھی۔البتہ میرے دل میں اس راوی کے بارے میں
[1] الموقظۃ :۱/۷۸ [2] تہذیب التہذیب:۲/۳۸۱ [3] لسان المیزان : ،مقدمہ ، ۱/۹۳۷، دارالمؤید،عبارتہ: وكان عند بن حبان ان جهالة العين ترتفع برواية واحد مشهور وهو مذهب شيخه بن خزيمة