کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 49
محمد بن حسن الشیبانی کا ترجمہ لسان المیزان میں اور ان پر امام دارقطنی رحمہ اللہ کی جرح بھی دیکھ لیں۔[1]
اب محمد بن حسن الشیبانی کو اس وجہ سے من الثقات الحفاظ سمجھا جائے جیسا کہ بعض نے سہارا لیا ہے۔[2]
خلاصہ یہ ہے کہ اس طرح کی ضمنی توثیق کا حتمی اور یقینی طور پر اعتبار نہیں کیا جائےگا ۔بلکہ اس حوالے سے ان کا مفصل اور بنیادی قو ل دیکھنا چاہئے ۔
کیا صرف صحیح روایات کے اہتمام پر مشتمل کتاب میں کسی راوی کی روایت کا ہونا اس کی توثیق ہے؟
اسی طرح ایک اصول یہ بھی بیان کیا ہےکہ وہ حضرات جنہوں نے شرط لگائی کہ ہم اپنی کتاب میں صحیح روایت درج کریں گے، اور صرف ثقات کی روایت لائیں گےجیسا کہ صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان ،صحیح ابن السکن وغیرہ تو اس کتاب میں کسی راوی کی روایت منقول ہونا یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ راوی ان کے ہاں قابل اعتبار ہے۔
مثال کے طور پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ الموقظۃ میں ذکر کرتے ہیں:
[1] لسان المیزان : وقال الدار قطني: لا يستحق الترك، (۶/۱۹۲)، دار المؤيد
تنبیہ:لا یستحق الترک کا معنی یہ نہیں ہے کہ اگر وہ متروک نہیں ہے تو ثقہ ہے بلکہ معنی یہ ہے کہ ضعیف تو ہے مگر متروک کے درجے کا نہیں ۔ مزید یہ کہ سولات البرقانی میں ہے کہ ان سے ابو یوسف کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا: ھو اقوی من محمد بن الحسن (سوالات البرقانی : ۵۶۷) سوالات السلمی میں ہے :فی حدیثھما ضعف (سوالات السلمی : ۳۳۸)
[2] استاد محترم حفظہ اللہ کا یہاں بعض کہہ کر جس کی طرف اشارہ کررہے ہیں وہ مولاناظفر احمد تھانوی صاحب ہیں، انہوں نے قواعد فی علوم الحدیث میں یہ بات کہہ دی ہے ، اور اس بارے میں شاہ صاحب رحمہ اللہ بھی نقض قواعد فی علوم الحدیث میں جواب دے چکے ہیں۔