کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 47
کیونکہ یہ روایت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ خالد بن علقمہ سےبیان کرتے ہیں اور وہ مسح برأسہ ثلاثۃلفظ بیان کرتے ہیں جبکہ : ’’خالفہ جماعۃ من الحفاظ الثقات منھم زایدہ بن قدامۃ و سفیان الثوری و شعبۃ و ابوعوانۃ و شریک و ابوالاشھب جعفر بن الحارث ۔۔۔۔ و حجاج بن ارطاۃ و ابان بن تغلب‘[1] ایک ثقہ جماعت نے امام صاحب کی مخالفت کی ہے، ان میں زائدہ بن قدامہ ، الثوری، شعبہ ابوعوانۃ، شریک ،ابولاشھب جعفر بن الحارث ۔۔۔۔۔۔حجاج بن ارطاۃ، ابان بن تغلبہیں۔ اب اس سے بظاہر یہ مفہوم نکلے گا کہ حجاج بن ارطاۃ کو بھی انہوں نے ثقہ اور حفاظ میں شامل کیا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ توثیق ضمنی ہے ،کیا حجاج بن ارطاۃ ،ابوالاشھب جعفر بن الحارث کو ثقہ سمجھا جائے گا ؟جبکہ حجاج بن ارطاۃ کو انہوں نے’’ ضعیف لایحتج بہ‘‘ اور جعفر بن الحارث کو ’’یعتبر بہ‘‘کہا۔[2] اب کہاں ثقہ ؟ اور یعتبر بہ کا درجہ؟ ان کے درمیان درجے کے اعتبار سے زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اب یہاں ایسے موقع پر اس نوعیت کی بنیاد پر ہر ہر راوی کو ثقہ نہیں سمجھا جائے گا۔حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بعض حضرات نے امام دارقطنی رحمہ اللہ پر اعتراضات کئے ہیں ان میں یہ اعتراض بھی ہے کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ کسی راوی کو کسی جگہ یہ کہتے ہیں اور کسی جگہ یہ کہتے ہیں؟؟ لیکن یہ اعتراض حقیقتاً امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اصول سے بے خبری کی وجہ سے ہے۔ یہ اسی قبیل کا مسئلہ ہے ، جیسے کہتے ہیں کہ ’’لایشقی جلیسھم ‘‘(یعنی ان کا ساتھی بدبخت نہیں ) یہ اسی نوعیت کا معاملہ ہے یہ نہیں کہ ہر ایک کی فرداً فرداً توثیق ہے۔
[1] الدارقطنی : ۲۹۸، باب صفة وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم [2] تہذیب : حجاج بن أرطاة، (۱/۳۵۶)، مؤسسة الرسالة