کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 45
’’ھذا تجاوز فی الحد فان الرجل قد حدث عنہ احمد فلا یستحق الترک ۔۔‘‘ ’’یہ حد سے تجاوز ہے ،اس راوی سے امام احمد نے روایت لی ہے ،یہ ترک کا مستحق نہیں ہے۔‘‘[1] یہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا تاثر ہے ، لیکن یہ صرف خالد بن نافع کا مسئلہ نہیں ہے کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ نے دیگر ایسے راویوں سے بھی روایت لی ہے جنہیں متروک کہا گیا۔ لہذا یہ اصول بھی حتمی نہیں ہے۔ بلکہ اغلبی ہے۔ کیونکہ بہت سے رواۃ کے بارے میں یہ اصول صادق نہیں آتا۔[2] مجتہد کا روایت کرنا اور عمل کرنا روایت اور اس کے رواۃ کی صحت کی دلیل ہے؟ جب ایک مجتہد روایت کرے اور اس روایت پر اس کا عمل ہو اور اس کا فتوی ہو تو بعض حضرات نے کہا کہ یہ دلیل ہے کہ اس کے نزدیک وہ روایت صحیح ہے اور اس کے راوی بھی ثقہ ہیں۔ لیکن حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ نے اس اصول کی نفی کی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب امام کا کوئی روایت بیان کرکے عمل نہ کرنا اس کے نزدیک روایت کے ضعف کی دلیل نہیں ہے تو روایت بیان
[1] ميزان الاعتدال :۱/۶۴۴ [2] استاد محترم نے یہاں صرف امام احمد اور شعبہ کی بات کی ہے ورنہ اس حوالے سے چند دیگر نام بھی لئے جاتے ہیں ، جیساکہ اس حوالے سے امام مالک، یحی بن سعید القطان ، عبدالرحمان بن مھدی کے بارے میں ایسے اقوال پیش کئے ہیں۔ بہرحال ان مذکورہ ناموں کے بارے میں بھی یہی اصول پیش نظر رکھا جائے گا۔ اسی طرح قواعد فی علوم الحدیث میں اس حوالے سے کچھ مزید نام بھی شامل کردئیے،جس کے یقیناً خاص مقاصد تھے، اورسید بدیع الدین شا ہ راشدی صاحب رحمہ اللہ نے اس کانقض قواعد فی علوم الحدیث میں مدلل جائزہ لیا ہے۔