کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 43
اولاً یہ اصول اغلبی ہے۔ لیکن ہر ہر راوی جس سے بھی وہ روایت کرے وہ ثقہ ہے یہ تمام کے بارے میں نہیں ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لو حدثتكم عن ثقة، ما حدثتكم عن ثلاثة‘‘[1] اگر میں صرف ثقہ ہی سے روایت کروں تو میں تین راویوں سے روایت نہ کرتا۔ الکفایۃ میں یہی قول خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ ذکر کیا ہے وہاں ثلاثین ہے۔[2]کہاں تین اور کہاںتیس ؟؟ خیر تین ہو یا تیس ، امام شعبہ رحمہ اللہ خود فرماتے ہیں کہ اگر میں ثقہ ہی سے روایت کرتا تو میں ان حضرات سے روایت نہ کرتا۔ بلکہ امام شعبہ رحمہ اللہ کے بارے میں امام حاکم رحمہ اللہ نے معرفۃ علوم الحدیث میں یہ کہا ہے: ’’انہ حدث عن جماعۃ من المجھولین ۔‘‘ [3]امام شعبہ رحمہ اللہ نے مجہولین کی ایک جماعت سے روایت کیا ہے۔ لہذا شعبہ رحمہ اللہ کی ان سے روایت ان کی توثیق کی دلیل نہ بنا،بلکہ اس سے آگے ہم دیکھتے ہیں کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے اسماعیل بن مسلم الھجری ،اشعث بن سوار، جابر بن یزید الجعی، داؤد بن یزید الاودی ، اسلم بن عطیۃ ، محمد بن عبیداللہ العرزمی سے روایت لی ہے اور یہ سب متروک ہیں، بلکہ بعض نے ان راویوں پر کذب کا اور متہم ہونے کا بھی الزام لگایا۔ بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام شعبہ رحمہ اللہ کے کئی مشائخ کا تذکرہ کیا ہے، جو متہم بالکذب ہیں
[1] سیراعلام النبلاء :۷/۲۰۹ ، یہی عبارت تذکرۃالحفاظ میں بھی ہے۔ اور شرح العلل لابن رجب کی عبارت تھوڑی سی مختلف ہے : وكان شعبة يقول: لو لم أحدثكم إلا عن الثقات لم أحدثكم إلا عن نفر يسير [2] الکفایۃ:۱/۲۹۴، باب ذكر الحجة على أن رواية الثقة عن غيره ليست تعديلا لہ [3] معرفۃ علوم الحدیث: ۱۰۶