کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 38
کو متساہلین میں شمار کیا ہے۔ جب ہم حافظ ذہبی رحمہ اللہ کے کلام کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ عجلی رحمہ اللہ متساہل نہیں ہیں۔ مثال کے طور عبد اللہ بن فروخ کو ابو حاتم رحمہ اللہ نے مجہول کہا ہے.[1]لیکن ذہبی رحمہ اللہ نے کہا: ’’حدثنا عنہ جماعۃ و وثقہ العجلی ۔‘‘[2] جماعت نے اس سے روایت کی ہے اور عجلی رحمہ اللہ نے اسےثقہ کہا ہے۔ گو یا کہ ان کی توثیق کا اعتبار کیا ہے۔ اسی طرح براء بن ناجیہ کے بارے میں ذہبی رحمہ اللہ کہتےہیں کہ’’ فیہ جهالة‘‘[3]لیکن ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قلت عرفہ العجلی وابن حبان فیکفیہ [4] ابن حبان رحمہ اللہ کی تنہا توثیق کے ابن حجر رحمہ اللہ قائل نہیں لیکن چونکہ ان کے ساتھ عجلی رحمہ اللہ بھی توثیق کرنے والے ہیں تو ان دونوں کی توثیق کا اعتبار یہاں ابن حجر رحمہ اللہ نے کیا ہے۔ اسی طرح سعید بن حیان کے بارے میں ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:لم یقف ابن القطان علی توثیق العجلی فزعم انہ مجھول[5] ’’ ابن القطان رحمہ اللہ کو اسکے بارے میں عجلی رحمہ اللہ کی توثیق کا پتہ نہیں چلا اس لئے انہوں نے اسے مجہول سمجھ لیا۔‘‘ ابن حجر رحمہ اللہ کا مذکورہ قول اس حوالے سے کتنا واضح ہے ۔ پھر اسی راوی کو ذہبی نے کاشف میں[6] اور ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب میں[7] ذکر کیا ہے۔ گویا کہ ذہبی اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ،
[1] الجرح والتعديل: (۵/۱۳۷)، دار الفكر- بيروت [2] ميزان الاعتدال :۲/۳۶۳ [3] میزان الاعتدال :۱/۳۱۵،دارالفکر [4] تہذیب التہذیب : ۱/۴۰۱، براءبن ناجیۃ الکاھلی [5] تہذیب التہذیب : ۲/۶۳۱،سعید بن حیان [6] الکاشف: ۱/۳۱۱، طبع دارالفکر بیروت [7] تقريب التهذيب: (۳۸۶)، ترجمة ۲۳۰۲ ،دار العاصمة، وقال ابن حجر: وثقه العجلي، من الثالثة.