کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 35
یعنی ’’(مذکورہ روایت پرحافظ عبدالحق رحمہ اللہ نے الاحکام الشرعیۃ الکبریٰ میں) سکوت کیا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابو محمد (عبدالحق بن عبد الرحمن الإشبيلي) نے ایک جماعت کے روایت کرنے پر قناعت کی ہے، اس کو ابراہیم بن نافع اور ابراہیم بن عمر بن کیسان نے روایت کیا ہے، لیکن یہ (یعنی ایک جماعت کا روایت کرنا) ایسی چیز ہے کہ جس پر قناعت نہیں کی جاسکتی اس سے عدالت ثابت نہیں ہوتی۔‘‘ اب یہاں یہ بات ان کے اپنے مؤقف کے بالکل برعکس ہے،اور یہ اکثر کرتے ہیں۔ بیان الوھم والایھام میں فہرست نکال کر دیکھیں ،جہاں وہ کہتے ہیں ’’لا تعرف عدالتہ‘‘ تو وہاں ان کے نزدیک اس کی توثیق ثابت نہیں ہوتی۔[1] اسی طرح حافظ ذہبی رحمہ اللہ : (حافظ ذہبی کا ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جس میں انہوں نے بیان
[1] ابن القطان رحمہ اللہ کی مذکورہ اصطلاح کی چند ایک مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔ اسماعیل بن ابراھیم کے بارے میں’’لم تثبت عدالتہ ‘‘ (بیان الوھم : ۴/۴۹۸) جبکہ تہذیب الکمال کے مطابق اس سے روایت لینے والے حاتم بن اسماعيل، زيد بن الحباب، سفيان الثوري،فضيل بن سليمان النميري، محمد بن عمر الواقدي، وكيع بن الجراح ہیں۔ جعفر بن ابی المغیرہ الخزاعی کے بارے میں’’ لم تثبت عدالتہ انما ھو من المساتیر‘‘ (بیان الوھم : ۴/۱۹۴) جبکہ ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اس سےابو حاتم کے بقول مطرف بن طريف،اشعث بن اسحاق القمي، ثعلبة بن سهل، ابو السوداء، يعقوب بن عبد الله القمي،اشعث بن سوار روایت کرتے ہیں۔بلکہ ان سے روایت لینے والے اور بھی ہیں مثلاً ان کا بیٹا خطاب ، حسان بن علی العنزی وغیرہ۔ کما فی التہذیب خیثمہ بن ابی خیثمہ البصری کے بارے میں’’لم تثبت عدالتہ وقال ابن معین لیس بشئی ‘‘ (بیان الوھم: ۳/۵۴۷) ان سے روایت لینے والے تہذیب الکمال کے مطابق یہ ہیں: بشير بن سلمان ابو إسماعيل ، بلال بن مرداس الفزاري ، جابر بن يزيد الجعفي ،سليمان الاعمش ، منصور بن المعتمر۔ حکیم بن حکیم بن عباد بن حنیف کے بارے میں’’ لم تعرف عدالتہ ‘‘ (بیان الوھم : ۳/۵۳۸) جبکہ ساتھ میں یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر چہ اس سے سهيل بن أبي صالح، عبد الرحمن بن الحارث اور اس کےبھائی عثمان بن حکیم نے روایت کی ہے۔ ۔۔۔۔۔ )بکر بن عمرو المعافری کے بارے میں’’ لم تعلم عدالتہ ‘‘ (بیان الوھم : ۴/۶۹) اسی مقام پر یہ بھی کہا کہ اس سے حيوة بن شريح،سعيد بن ابي ايوب، ابن لهيعة،يحيى بن ايوب روایت لیتے ہیں، اور یہ ان شیوخ میں سے ہے جس کے بارے میں وہ(ائمہ) نہیں جانتے پھر احمد بن حنبل سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یروی عنہ کہا، ابن ابی حاتم سے پوچھا گیا تو انہوں نے شیخ کہا، گویا کہ ان اقوال کے ذکر کرنے کا مقصود یہ ہے کہ اس کے بارے میں کوئی توثیقی کلمات منقول نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسی راوی کے بارے میں ایک جگہ کہا : ’’ لم تثبت ثقتہ فی الحدیث‘‘ (۴/۴۹۵) گویا کہ پہلے جو عدالت کی نفی کی ہے اس سے مراد توثیق ہے۔ ان کی اس اصطلاح کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی میزان الاعتدال میں نشاندہی کی ہے کما فی الرفع والتکمیل(۲۵۸)طبع مکتبہ شان اسلام مزید ان کی اس کتاب پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے مستقل ایک کتاب میں رد کیا ہے۔ جیساکہ استاد محترم حفظہ اللہ نے تذکرہ کیا ہے۔