کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 33
ان کے بارے میں کوئی جرح منقول نہیں ہے۔ تو یہ تقریباً امام ابن حبان رحمہ اللہ والی بات ہی ہے، لہذا جس طرح امام ابن حبان رحمہ اللہ توثیق میں متساہل ہیں ، اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ بھی متساہل ہیں۔ ۳۔کیا امام ابن حبان رحمہ اللہ نے یہ اصول امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے لیا ہے؟ بعض حضرات نے خوامخواہ یہاں یہ بات چھیڑ دی ہے کہ ابن حبان رحمہ اللہ نے یہ اصول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے لیا ہے۔[1]حالانکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ مجہول کی روایت کو مشروط قبول کرتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے تو انہوں نے یہ اصول کیا لینا ہےوہ تو خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر شدید جرح کرتے ہیں۔[2]بلکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اپنے شاگرد قاضی ابو یوسف اور محمد ابن حسن شیبانی کہتے ہیں کہ مجہول کی روایت قبول نہیں۔[3] شاگرد تو معترف نہیں ہے، اس کو تو گول کرجاتے ہیں اور آگے ابن حبان رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے یہ اصول امام صاحب سے لیا ہے اور جب ان کی جرح امام صاحب پر دیکھتے ہیں تو پھر پریشانی ہوجاتی ہے۔علاوہ ازیں امام ابن حبان رحمہ اللہ نے مجہول کی مقبولیت میں جو شرطیں ذکر کیں ہیں امام صاحب کے اصول میں ان کا کوئی ذکر نہیں اس لئے یہ تاثر درست نہیں کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے یہ اصول امام صاحب سے لیا ہے۔ تو خیر ہر کوئی اپنی اپنی ضرورت کے
[1] شرح شرح نخبۃ الفکر لملا علی قاری : ان کی عبارت یہ ہے: [واختار هذا القول،ابن حبان تبعا للإمام الأعظم] ۔ البتہ استاد محترم حفظہ اللہ کا یہاں اشارہ مولانا ظفر عثمانی صاحب کی طرف ہے، کیونکہ انہوں نے ملا علی قاری ہی کے حوالے سے اس دعوی کو قواعد علوم الحدیث میں اور اعلاء السنن میں بیان کیا ہے، اور ان کے اس دعوی کی علمی اندازمیں استاذ محترم اعلاء السنن فی المیزان میں خبرلے چکے ہیں اور اس حوالے سے ان کی تضاد بیانیوں کو بھی بیان کرچکے ہیں۔ دیکھئے: اعلاء السنن فی المیزان: ۲۹۵تا۲۹۹ ملا علی قاری کے اس قول کو ابو غدہ نے بھی الرفع والتکمیل کے حاشیہ میں پیش کیا۔ (۲۴۵) [2] المجروحین :۳/۶۱شرح شرح نخبۃ الفکر لعلی القاری، السرخسی ، [3] شرح شرح نخبۃ الفکر لعلی القاری، السرخسی ،