کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 32
رم المنکی میں دو تین صفحات پر مشتمل رد کیا ۔[1]اور ان کے حوالے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لسان المیزان کے مقدمے میں اور پہلی جلد کے آخر میں ایوب کے ترجمے میں اس مؤقف پر رد کیا ہے۔ [2]
بہرحال یہ اصول کسی کی توثیق ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہے۔
۲۔توثیق راوی کے حوالے سے امام حاکم رحمہ اللہ کا تساہل:
امام حاکم رحمہ اللہ کے ایک کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مؤقف بھی یہی ہے۔جیسا کہ ایک حدیث کے بارے میں فرمایا: ’’صحیح الاسناد فان ابا صالح الخوزی و ابا الملیح الفارسی لم یذکرا بالجرح انما ھما فی عدد المجھولین لقلۃ الحدیث‘‘ [3]
یعنی: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، ابوصالح الخوزی اور ابوالملیح الفارسی کے بارے میں کوئی جرح مذکور نہیں ہے،یہ دونوں قلتِ حدیث کی وجہ سے مجہولین میں سے شمار ہوں گے ۔
مذکورہ قول میں امام حاکم رحمہ اللہ نے صحیح الاسناد کہنے کے بعد ان رواۃ کے بارے میں یہ کہا کہ
[1] الصارم المنكي: ۳۷۴ تا ۳۷۶، طبع دارالکتب پشاور ،علامہ ابن عبدالھادی رحمہ اللہ نے بعض رواۃ کی مثالیں بھی دی ہیں کہ جنہیں ابن حبان رحمہ اللہ خود کتاب الثقات میں نقل کرتے ہیں اور ان کے احوال سے بے خبر ہوتے ہیں۔جیسے:
سهل يروي عن شداد بن الهاد ، ان کے بارے میں فرماتے ہیں :’’ولست أعرفه، ولا أدري من أبوه‘‘
حنظلہ کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’حنظلةشيخ يروي المراسيل لا أدري من هو‘‘
الحسن ابو عبد الله کے بارے میں :’’ شيخ يروي المراسيل، روى عنه أيوب النجار لا أدري من هو ولا ابن من ھو‘‘
جميل کے بارے میں ’’شيخ يروي عن أبي المليح بن أسامة، روى عنه عبد الله بن عون، لا أدري من هو ولا ابن من هو‘‘
یہ چند مثالوں سمیت مزید بحث اس حوالے سے علامہ ابن عبدالھادی رحمہ اللہ نے کی ہے۔
[2] لسان الميزان:جلد۱ ص ۹۳، ۹۴، دار المؤيد، ترجمة أيوب الأنصاري: (۲/۱۸۶) ترجمة ۱۵۳۸۲۔
[3] مستدرک حاکم : ۱/۴۹۱ ،كتاب الدعاء والتكبير والتهليل والتسبيح والذكر