کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 28
آپ حیران ہوں گے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے یہاں حد سے تجاوز کیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے امام یحی بن معین رحمہ اللہ کے بارے میں کہہ دیا کہ وہ غالی حنفی تھے، اس لئے انہوں نے امام شافعی رحمہ اللہ پر نقد کیا ہے[1]لیکن حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا یہ نقد بھی غلط ہے۔کیونکہ اگر آپ یحی بن معین رحمہ اللہ کے فقہی اقوال دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا یحی بن معین رحمہ اللہ کے بارے میں یہ تبصرہ صحیح نہیں ہے۔[2]
[1] امام ذہبی رحمہ اللہ نے یہ بات ’’ الرواة الثقات المتكلم فيهم بما لا يوجب ردهم‘‘ میں کہی ہے۔ چنانچہ کتاب کے مقدمہ میں امام شافعی پر امام ابن معین کی طرف سے کی جانے والی جرح اور ابن معین کے بارے ابن عبدالبر کا قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: [قال المؤلف رحمه الله تعالى وكلامه يعني ابن معين في الشافعي ليس من هذا اللفظ الذي كان عن اجتهاد وإنما هذا من فلتات اللسان بالهوى والعصبية فإن ابن معين كان من الحنفية الغلاة في مذهبه وإن كان محدثا] (الرواۃ الثقات : صفحہ نمبر 30 طبع دارالبشائر )جہاں تک امام ابن معین کے غالی حنفی ہونے کی بات ہے تو یہ غلط ہے، جیساکہ ان کے فقہی اقوال سے واضح ہوجائے گا جسے ہم آگے درج کررہے ہیں، یہاں صرف یہ بیان کرتے ہیںکہ امام ابن معین سے امام ابوحنیفہ کے بارے میں بھی جرح ملتی ہے، دیکھئے :(تاریخ بغداد: ۱۳/۴۲۲، الضعفاء العقیلی :۴/۱۴۱۲، الکامل لابن عدی:۸/۲۳۶ ) اگر وہ غالی حنفی ہوتے اور ایسے ہوتے کہ اسی بناء پر امام شافعی پر جرح کرجائیں تو وہ قطعاً امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح نہ کرتے۔ [2] جہاں تک ان کے فقہی اقوال کا معاملہ ہے ، تویہ بحث ذرا تفصیل طلب اس کا یہاں محل نہیں ہے۔ ان کا فقہی مسلک قطعاً مقلدانہ نہیں تھا، بعض مسائل میں وہ کسی کی رائے بہتر سمجھتے ہیں۔ تو بعض میں کسی دوسرے کے موافق ہے۔ یہاں ان کے فقہی مسلک کی ایک جھلک کے لئےانتہائی مشہور مسئلہ جوکہ اہل حدیث کے امتیازی مسائل میں گردانا جاتا ہے ، رفع الیدین اور فاتحہ خلف الامام کے بارے میں ابن معین رحمہ اللہ کا مؤقف ملاحظہ فرمائیے: ابن محرز کہتے ہیں : ’’سمعت يحيى يقول من قرأ خلف الامام فقد احسن ومن لم يقرأ فصلاته جائزة (موسوعۃ تاریخ ابن معین :۲/۷۸) یعنی : جس نے امام کے پیچھے قرأت کی اس نے اچھا کیا، اور جس نے نہ کی اس کی نمازجائز ہے (بقیہ گزشتہ صفحہ )اسی طرح رفع الیدین کے بارے میں بھی ابن محرز کہتے ہیں : ’’سمعت يحيى بن معين يقول من رفع فى الصلاة فقد احسن ومن لا فلا شىء عليه‘‘(موسوعۃ تاریخ ابن معین :۲/۷۸) میں نے یحی ابن معین کو سنا وہ فرمارہے تھے کہ جس نے نماز میں رفع الیدین کیا اس نے اچھا کیا اور جس نے نہ کیا اس نے بھی اچھا کیا۔ بلکہ ابن محرز نے تو یہاں تک کہہ دیا : ’’رأيت يحيى بن معين مالا أحصيه كثرة يرفع يديه في الصلاة اذا افتتح واذا أراد أن يركع واذا رفع رأسه من الركوع‘‘ (موسوعۃ تاریخ ابن معین :۲/۹۶) یعنی :میں نے یحی بن معین کو بکثرت(جسے میں شمار نہیں کرسکتا) دیکھا کہ وہ نماز شروع کرتے وقت ، رکوع کرتے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ لہذا اس سے واضح ہے کہ ابن معین قطعاً حنفی نہیں تھے ،بعض مسائل میں اگر ان کی موافقت ہے تو یہ موافقت ایک مجتہد کی حیثیت سے ہےاور صرف موافقت کی حد تک ہے نہ کہ تقلید کی حد تک۔