کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 26
ثبوت عدالت
معروف العدالۃ شخص کے بارے میں منفرد جرح کا حکم :
کچھ ایسے نفوس قدسیہ موجود ہیں جن کی تحسین و توثیق بالکل مبرہن ہے سورج اور چاند کی طرح روشن ہے اب ان کے اوپر جو حرف گیری کرتا ہے اس کی حرف گیری کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔جس کی عدالت ثابت ہے اور اس کی عدالت کے بارے میں اقوال معروف ہیں، اب کوئی گھسا پٹا یا کوئی منفرد قول اس کی تجریح کے بارے میں ہے تو وہ قابل قبول نہیں ہوگا۔ مثال کے طور پر ابن ابی ذئب ہیں اور ان کے مقابلے میں امام مالک رحمہ اللہ ہیں ۔اب ابن ابی ذئب کا تبصرہ امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں موجود ہے۔[1]حالانکہ امام مالک کا مقام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اب ابن ابی ذئب اگر کچھ باتیں کہتے ہیں، اس سے امام مالک رحمہ اللہ کا کچھ نہیں بگڑے گا ۔
[1] ابن ابی ذئب کا نام محمد بن عبد الرحمن العامري ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ ان کا ترجمہ قائم کرتے ہوئے ’’ الإمام، شيخ الإسلام، الفقيه ‘‘ جیسے القاب استعمال فرماتے ہیں،نیز فرماتے ہیں و کان من اوعیۃ العلم ، ثقۃ ، فاضلاً، قوالاً بالحق، مھیباً ۔ان کے اساتذہ میں عکرمہ، شرحبیل ، شعبہ، زہری جیسی شخصیات ہیں اور تلامذہ میں ابن المبارک ، یحی بن سعید القطان ، وکیع اور آدم بن ابی ایاس رحمھم اللہ جسی شخصیات ہیں۔استاد محترم حفظہ اللہ یہاں جس تبصرے کی طرف اشارہ کررہے ہیں، یہ تبصرہ سیر اعلام النبلاء میں موجود ہے، چنانچہ حافظ ذہبی نے امام احمد رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے، ’’ابن ابی ذئب تک یہ بات پہنچی کہ امام مالک رحمہ اللہ ایک حدیث [البيعان بالخيار ما لم یتفرقا] (صحیح بخاری: ۲۱۰۹)]قبول نہیں کرتے، ابن ابی ذئب نے جواب دیا : ’’يستتاب، فإن تاب، وإلا ضربت عنقه‘‘یعنی ان سے توبہ کروائی جائے گی اگر وہ توبہ کرلیں تو ٹھیک ، ورنہ ان کی گردن اڑادی جائے گی، پھر امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن ابی ذئب ، امام مالک سے زیادہ ورع اور حق کہنے والے تھے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ امام احمد کے اس قول کے بعد امام مالک رحمہ اللہ کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ لو كان ورعا كما ينبغي، لما قال هذا الكلام القبيح في حق إمام عظيم‘‘ یعنی اگر وہ ورع والے ہوتے جیسا کہ ان کو لائق تھا تو وہ اتنے بڑے امام کے بارے میں ہر گز ایسا قبیح کلام نہیں کرتے۔
پھر دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں :امام مالک رحمہ اللہ نے ظاہر حدیث پر اس لئے عمل نہیں کیا ہوگا کہ وہ اس کو منسوخ سمجھتے ہوں گے.
دوسرا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں ، کہ اس حوالے سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ نے اس حدیث پر عمل کیا ہے حتی یتفرقا کو انہوں نے تفرق بالتلفظ پر محمول کیا ، (یعنی کلام مکمل ہوجائے)تو امام مالک کے لئے اس حدیث اور تمام احادیث پر اجر ہے ، اگر وہ کسی مسئلہ میں صائب الرائے ہوں تو اجر مزید بڑھ جاتا ہے۔اور خطاء پر تلوار کو جائز سمجھنا تو حروریہ (خارجیوں ) کا مؤقف ہے۔
تیسرا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں:’’ولم يسندها الإمام أحمد، فلعلها لم تصح‘‘ امام احمد نے اس کی سند پیش نہیں کی ، ممکن ہے کہ یہ واقعہ ہی صحیح ثابت نہ ہو۔
بہرحال حافظ ذہبی کے ان بعض اقتباسات سے واضح ہوچکا ہے کہ اس تبصرے کی کیا حیثیت ہے، لہذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے یہی فیصلہ دیا :’’ فلا نقصت جلالة مالك بقول ابن أبي ذئب فيه، ولا ضعف العلماء ابن أبي ذئب بمقالته هذه، بل هما عالما المدينة في زمانهما‘‘ یعنی ابن ابی ذئب کی جرح سے امام مالک کی جلالت میں کوئی نقص نہیں آئے گا اور نہ ہی ابن ابی ذئب کے اس قول کی وجہ سے علماء نے ان پر جرح کی ہے بلکہ یہ دونوں اپنے دور کے مدینہ کے عالم تھے۔ (سیر اعلام النبلاء :۷/۱۴۱، مؤسسۃ الرسالہ )