کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 22
بلکہ امام یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ کا بھی بڑا عجیب واقعہ ہے ۔( یہ بصری ہیں اور یحی بن سعید الانصاری رحمہ اللہ مدنی ہیں ۔) یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ جب آخری ایام میں تھے ان کے پاس ابوبکر الخلاد رحمہ اللہ آئے ،یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ نے ان سے پوچھ لیا کہ اہل بصرہ میرے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ (کہ معلوم ہوجائے کہ وہ کیا خیال رکھتے ہیں؟ ان کی میرے بارے میں کیا شہادت ہے؟) انہوں نے جواب دیا: اہل بصرہ کہتے ہیں کہ آدمی تو بہت اچھے ہیں لیکن یہ جو راویوں پر جرح کرتے ہیں یہ کام اچھا نہیں ہے۔ (یعنی سب خوبیوں کے اعتراف کے بعد آپ کی جرح و تعدیل کے عمل کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے) امام یحی بن سعید القطان رحمہ اللہ نے فرمایا:’’مجھے یہ بات گوارا ہے کہ قیامت کے دن پوچھا جائے کہ تم نے اس کے بارے میں یہ نقد کیوں کیا ہے؟ لیکن یہ سوال گوارا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ پوچھے کہ میرے نبی ﷺکی طرف بات بیان کرنے والے نے بات بیان کی اور وہ آدمی قابل اعتبار نہیں تھا اور تم خاموش رہے مجھے اس سوال سےخوف آتا ہےکہ اس کا، میں کیا جواب دوں گا؟؟[1]
بہرحال بعض نیک حضرات نے اسے غیبت بھی سمجھا ہے ،لیکن یہ غیبت نہیں ہےبلکہ دین کی خدمت اور احادیث رسول ﷺ کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے۔
عدالت:
لغوی معنی: ’’العدالة العدل من الناس ‘‘
[1] شرح العلل لابن رجب: ۱/۴۶۶، تراجم اعیان الحفاظ، عبارتہ:’’ دخلت على يحيى بن سعيد في مرضه، فقال لي: يا أبا بكر، ما تركت أهل البصرة يتكلمون؟ قلت: يذكرون خيرا، إلا أنهم يخافون عليك من كلامك في الناس. فقال: احفظ عني، لأن يكون خصمي (في الآخرة) رجل من عرض الناس أحب إلي من أن يكون خصمي في الآخرة النبي صلى الله عليه وسلم يقول: بلغك عني حديث وقع في وهمك أنه عني غير صحيح، يعني فلم تنكر.‘اور الکامل فی الضعفاء کے مقدمہ میں بھی یہ واقعہ مذکور ہے۔