کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 18
ایک قول ابن مبارک رحمہ اللہ کا ہے : ’’ الاسناد عندی من الدین لولا الاسناد لقال من شاء ماشاء‘‘[1] ’’ میرے نزدیک سند کا معاملہ دین کا معاملہ ہے اگر سند نہ ہو تو جس کے دل میں جو آئے گا وہ بیان کرے گا۔ ‘‘ یعنی جب اس سے سند مانگی نہ جائے ،اسے یہ معلوم ہو کہ مجھ سے کس نے پوچھنا ہے ؟توپھر وہ دین کے نام پر جوکچھ بھی کہہ دے گا لوگ اس کے پیچھےچلیں گے۔ اسی لئے کہا کہ یہ دین کا مسئلہ ہے یہ نہ ہو تو جس کا جو دل چاہے کہہ دے گا۔ اسی قسم کا قول خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ان سے نقل کیا ہے: ’’و مثل الذی یطلب امر الدین بلا سند کمثل الذی یرتقی السطح بلا سلم‘[2] یعنی : جو آدمی سند کے بغیردین لیتا ہے، اس کی مثال ایسے ہے جیسے وہ سیڑھی کے بغیر چھت پر جانے کی کوشش کررہا ہے۔ یعنی جس طرح سیڑھی کے بغیر چھت پر نہیں جایا جا سکتا ،اسی طرح سند کے بغیرنبی کے فرمان تک نہیں پہنچاجاسکتا۔ ابواسحاق ابراہیم بن عیسیٰ الطالقانی فرماتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کہا اے ابوعبدالرحمن! اس حدیث کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جو رسول اللہ سے روایت کی گئی ہے کہ نیکی کے بعد دوسری نیکی یہ ہے کہ تو اپنی نماز کے ساتھ اپنے والدین کے لئے نماز پڑھے اور اپنے روزے کے ساتھ ان کے لئے روزہ رکھے، ابن مبارک رحمہ اللہ نے فرمایا :
[1] مقدمه صحیح مسلم مع شرح النووي، (۱/۴۷)، دار المعرفة ، معرفۃ للحاکم: (۱/۴۱)، دار أحياء العلوم، الکفایۃ:۲/۴۵۳، باب ذکر ما احتج به من ذھب الی قبول المراسیل و ایجاب العمل بھا والرد علیه [2] الکفایۃ:۲/۴۵۲ باب ذکر ما احتج به من ذھب الی قبول المراسیل و ایجاب العمل بھا والرد علیه