کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 17
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس(مسعدۃ بن صدقہ ) کے ترجمے میں موضوع قرار دیاہے۔
لیکن اس کامعنی یہ نہیں کہ سند کی حیثیت نہیں ہے بلکہ اس روایت کے بارے میں آگاہی مقصود ہےکہ یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔
سند دین میں سے ہے:
محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’إن هذا العلم دين، فانظروا عمن تأخذون دينكم ‘‘[1]
’’یہ دین کامعاملہ ہے اس لئے تم دیکھو کہ تم اپنا دین کس سے لیتے ہو؟؟‘‘
یہی قول ابن عباس ، ابوہریرہ w ،زید بن اسلم ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، الضحاک بن مزاحم رحمۃ اللہ علیہم سے مروی ہے۔ [2]
ضمناً ایک بات کردوں کہ یہ جو بات انہوں نےفرمائی ہےکہ اسلاف کا محتاط پہلو یہ تھا جیسا کہ مذکور ہوا ، لیکن وائے افسوس آج امت اپنا دین کن سے لے رہی ہے؟ نیز جن سے دین لیاجانا چاہئے، ان کے لئےشرائط ہیں؟ لیکن اب معاملہ کیا ہے؟؟ جو نماز تک نہ پڑھے، کبائر کا مرتکب ہو ،برہنہ اور پاکی، پلیدی کا بھی خیال نہ کرے، اس سے دین لے رہے ہیں۔ کجا ہمارے سلف کی فکر اور ایک ہم ہیں کہ کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم نے کس سے دین لینا ہے۔
[1] مقدمہ صحیح مسلم مع شرح النووي (۱/۴۴)، دار المعرفة- بيروت،اسی طرح یہ قول سنن الدارمی: ۴۲۳، ۴۲۸، ۴۳۳، المقدمہ، کتاب الادب،المحدث الفاصل بین الراوی والواعی: ۱/۴۱۵)،دار الفكر - بيروت، الضعفاء الکبیر للعقیلی: (۱/۷)، دار المكتبة العلمية- بيروت، الجامع لاخلاق الراوی: (۱/۱۲۹)، مكتبة المعارف- الرياض، الفقیہ والمتفقہ: (۲/۱۹۱)، دار ابن الجوزي- السعودية،الکفایۃ: ۱۹۶
[2] مقدمہ المجروحین لابن حبان : ۱/۲۱،۲۲،۲۳ دارالمعرفۃ،بیروت لبنان