کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 16
اختصاص امت محمدیہ کا ہےکہ سند کا تعلق صرف کتاب و سنت کے ساتھ نہیں ہے بلکہ جتنے معاملات ہیں ان کی حکایت و بیان سند کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔
علامہ مزی رحمہ اللہ نے مقدمہ تہذیب الکمال میں ابن المدینی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہےکہ’’ التفقہ فی معانی الحدیث نصف العلم و معرفۃ الرجال نصف العلم ‘‘
’’حدیث کے معانی و فقہ کو جاننا نصف علم ہے اور راویوں کو جاننا نصف علم ہے۔‘‘[1]دوہی چیزیں ہیں ، ایک متن ا ور دوسری سند ،متن کے معنی مفہوم کو جاننا اور دوسرا علم سند کا ہے۔
یہاں یہ بھی ایک دلچسپ بات ہےکہ علامہ قسطلانی کی المواھب اللدنیۃ میں انہوں نے سند کی یہی اہمیت بیان کرتے ہوئے ایک عجیبروایت بیان کردی ہے جیسا کہ بسا اوقات حق بیان کرتے ہوئے غلو بھی آجاتا ہے۔ تو اس میں ایک موضوع روایت ہے: جس میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’إذا كتبتم الحديث فاكتبوه باسناد فإن يك حقا كنتم شركاء في الأجر وإن يكن باطلا كان وزره عليه‘‘[2]
ہر معاملے میں غلو پایا جاتا ہے جب حقیقت سے تجاوز کیا جائے تو باتونی آدمی ہر فن میں مل جاتے ہیں کہ ایک کذاب ( مسعدۃ بن صدقہ[3]) نے ایک روایت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرکے گھڑلی کہ جوبھی حدیث بیان کرو تو سند کے ساتھ بیان کرو اور اگر وہ سند کے ساتھ بیان کرو تو صحیح اجر ملے گا اور اگر غلط ہوگی تو اس کا وزر (بوجھ ) بنانے والے پر ہوگا۔
[1] تہذیب الکمال: مقدمہ، ۱/۹
[2] المواهب اللدنیۃ ،حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے موضوع قرار دیا ہے۔ میزان الاعتدال : ترجمة مسعدۃ بن صدقة ۴/۹۰ ترجمہ نمبر:۸۹۳۸،اسی طرح علامہ البانی a نے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ (السلسلۃ الضعیفۃ:۸۲۲(
[3] امام دارقطنی a نے اسے متروک قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال : ۴/۹۰ ترجمہ نمبر:۸۹۳۸، لسان المیزان :ترجمہ نمبر: ۷۴۲۴، ۷/۸۱ (