کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 109
سے قدیم غلطی ہوئی ہے، امام ترمذی کا وہم نہیں ہے۔
اس قسم کی غلطیاں اورا خطاء ہماری سنن کی کتابوں میں بھی اور رجال کی کتابوں میں بھی موجود ہیں۔
آپ دیکھئے: فتح الباری کے مقدمے میں ابراہیم بن سوید بن حیان کے بارے میں مذکور ہے، کہ ’’ وثقہ ابن معین وابو زرعة۔‘‘[1]جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابو زرعہ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ لیس بہ باس۔اب لیس بہ باس والی توثیق اور ثقہ کہہ کر کی جانے والی توثیق میں فرق ہے،ثقہ کا درجہ اعلی ہے، لیس بہ باس سے،اور چونکہ لیس بہ باس توثیق کا جملہ شمار ہوتا ہے اس لئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو بھی توثیق میں شامل کردیا۔ تو اس قسم کی جب جرح یا توثیق دیکھیں تو یہ معلوم کرنا چاہئے کہ اصل الفاظ کیا ہیں ؟
مثال کے طور پر مقدمہ فتح الباری میں ابراہیم بن منذر کے بارے میں لکھا ہوا ہے کہ وثقہ ابن معین والنسائی[2] جبکہ ہم امام نسائی کا کلام دیکھتے ہیں تو تہذیب میں خود حافظ لکھتے ہیں: قال النسائی: لیس بہ باس، [3]
اسی طرح بشر بن شعیب کے بارے میں امام ابن حبان رحمہ اللہ مجروحین میں لکھتے ہیں کہ قال البخاری ترکناہ ،[4]یہ جرح ہے اور اسی جرح کی بنیاد پر ابن حبان رحمہ اللہ مجروح قرار دیتے ہیں ۔ جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے التاریخ الکبیر میں الفاظ یہ ہیں کہ انما ترکناہ حیا سنۃ ۲۱۲ھ ہم نے
[1] فتح الباری : مقدمہ، ۵۵۳،دارالسلام ریاض
[2] فتح الباری : مقدمہ، ۵۵۴، دارالسلام ریاض
[3] تہذیب التہذیب : ۱/۱۵۷دارالکتب العلمیۃ ،
[4] المجروحین میں بشر بن شعیب کا ترجمہ موجود نہیں یہ ساری بات حافظ ابن حجر نے نقل کی ہے ، اسی سے استاد محترم حفظہ اللہ نے نقل کیا ہے بلکہ میزان: ۳۱۸ میں بھی اس کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بشر کا ترجمہ المجروحین سے ساقط ہے ،تفصیل کے لئے تہذیب الکمال میں شعیب کے ترجمہ کا حاشیہ دیکھیں ۔