کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 103
بہت کچھ لکھا ہے، بہت سی کتابیں لکھی ہیں، اب یہ کہنا کہ السیر الکبیر آخری کتاب ہے اور امام اوزاعی رحمہ اللہ نے دیکھی ہے۔ اگر آخری ہے تواوزاعی نے کیسے دیکھ لی؟؟ حالانکہ وہ ۱۵۸ھ میں انتقال کرچکے ہیں ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات کتابوں میں موجود ہیں لیکن اس قسم کے واقعات کا دائرہ معلوم کرنے کا ایک ذریعہ اس کی توثیق و تعدیل سے ہٹ کر اس کی ولادت و وفات کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے تاکہ پتہ چلے کہ اس کی اصل حقیقت کیا ہے یہ ثابت بھی ہے یا کسی بنانے والے نے بنالی ہے۔ بہت سی باتیں اس طرح بنائی ہوئی ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ کا آپس میں سماع نہیں ہے،[1] مگر کذابوں نے دونوں بزرگوں کے مابین ایک مناظرہ گھڑ لیا۔[2]
بہرحال امر واقع میں یہ چیز صحیح محسوس نہیں ہوتی، یہ چیزیں ہمیں ملحوظ رکھنی چاہییں ،جرح و تعدیل سے ہٹ کر بھی ان سنین ،ولادت،وفیات وغیرہ کا ہمیں علم ہونا چاہئے۔
[1] دیکھئے : العلل و معرفۃ الرجال:۴۸۴۲، عبارت:’’ لم یسمع الاوزاعی من ابی حنیفۃ شیئا ،انما عابہ بہ‘‘
[2] استاذ محترم جس واقعے کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں وہ رفع الیدین کے حوالے سے مسند ابی حنیفہ میں موجود ہے: جس کی عبارت یہ ہے [اجتمع أبو حنيفة والأوزاعي في دار الحناطين بمكة، فقال الأوزاعي لأبي حنيفة: ما بالكم لا ترفعون أيديكم في الصلاة عند الركوع وعند الرفع منه؟ فقال أبو حنيفة: لأجل أنه لم يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه شيء، فقال: كيف لم يصح وقد حدثني الزهري، عن سالم، عن أبيه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه كان يرفع يديه إذا افتتح الصلاة، وعند الركوع، وعند الرفع منه، فقال له أبو حنيفة: وحدثنا حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، والأسود، عن عبد الله بن مسعود، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يرفع يديه إلا عند افتتاح الصلاة، ولا يعود لشيء من ذلك، فقال الأوزاعي: أحدثك عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وتقول: حدثني حماد، عن إبراهيم، فقال له أبو حنيفة: كان حماد أفقه من الزهري، وكان إبراهيم أفقه من سالم، وعلقمة ليس بدون ابن عمر في الفقه، وإن كانت لابن عمر صحبة، فله فضل صحبة، والأسود له فضل كثير، وعبد الله عبد الله، فسكت الأوزاعي] یعنی : امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی رحمہ اللہ مکہ میں دار حناطین میں اکٹھےہوئے تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ سے کہا: تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے تم لوگ رکوع جاتے وقت اوررکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کیوں نہیں کرتے؟ تو ابوحنیفہ نے جواب دیا: اس لئے کہ اللہ کے رسول ﷺسے اس سلسلے میں کچھ بھی ثابت نہیں ہے ۔ تو امام اوزاعی رحمہ اللہ نے کہا: کیوں نہیں ثابت ہے جبکہ مجھ سے امام زہری نے بیان کیا ، انہوں نے سالم سے نقل کیا انہوں نے اپنے والد سے نقل کیا انہوں نے اللہ کے رسول ﷺسے روایت کیا کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع کرتے وقت ، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرتے تھے ۔ تو امام ابوحنیفہ نے کہا: اور ہم سے حماد نے بیان کیا ، انہوں نے ابراہیم سے روایت کیا ،انہوں نے علقمہ اور اسود سے نقل کیا ، انہوں نے عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ اللہ کے رسول ﷺ صرف نماز شروع کرتے وقت ہی رفع الیدین کرتے تھے ، اور اس کے بعد ایسا کچھ بھی نہیں کرتے تھے ۔ تو امام اوزاعی a نے کہا: میںجو حدیث پیش کررہا ہوںوہ ’’ زہری عن سالم عن ابیہ عن النبیﷺ‘‘کی سند سےہے اور اس کے مقابلے میں آپ ’’حماد عن ابراہیم‘‘ کی سند سے حدیث پیش کررہے ہیں ؟ امام ابوحنیفہaنے اس کے جواب میں ان سے کہا: حماد زہری سے زیادہ بڑے فقیہ تھے اور ابراہیم سالم سے زیادہ بڑےفقیہ تھے اور علقمہ بھی ابن عمررضی اللہ عنہ سے فقہ میں کم نہیں ہیں گوکہ ابن عمررضی اللہ عنہ صحابی ہیں اور انہیں یہ شرفِ صحبت حاصل ہے ، اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ اس کے بعد امام اوزاعی رحمہ اللہ خاموش ہوگئے۔
یہ پورا واقعہ ہی جھوٹا ہے اس کتاب مسند کا جامع عبد الله بن محمد بن يعقوب بن الحارث الحارثی ہی امام ابوحنیفہ کے ڈیڑھ سو سال بعد کا ہے اور جھوٹا راوی ہے۔
پھر مزید اس میں محمد بن ابراهيم بن زياد الرازي کذاب ہے۔
اسی طرح اس میں ایک راوی سلیمان بن داؤد شاذکونی ہے جس کے بارے میں کلام گزر چکی ہے
اور اس مناظرے کے تفصیلی جائزے کے لئے دیکھئے:مقالات راشدیہ کی جلد نمبر۵صفحہ نمبر ۲۵۳تا ۳۴۸،جس میں سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ کے مقالہ ’’ کحل العینین لمن یرید تحقیق مناظرۃ الامام ابی حنیفۃ مع الاوزاعي فی رفع الیدین ‘‘ میں تفصیلی رد موجود ہے ، جوکہ اصلاً عربی میں ہے۔ مقالات راشدیہ میں اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔