کتاب: ضوابط الجرح والتعدیل - صفحہ 100
ایک بہت بڑے قاضی اصبغ بن خلیل القاضی [1]نے ایک روایت بیان کی ہے۔وہ کہتا ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہی اپنی سند بیان کرکے کہتے ہیں کہ میں نے نبی کے پیچھے نمازیں پڑھی ، میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی نمازیں پڑھیں ، عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی نمازیں پڑھیں اور عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی۔ اور کوفہ میں علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھی نمازیں پڑھیں ،اور نبی بھی اور خلفاء راشدین بھی نماز میں رفع الیدین نہیں کرتے تھے[2] یہ بات اصبغ بن خلیل بیان کرتا ہے جو مالکی فقیہ ہے اور قاضی ہے ،پچاس سال تک عہدہ قضاء پر فائز رہا ہے۔ مگر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تو فوت ہوئے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اور علی رضی اللہ عنہ کوفہ میں نمازیں پڑھانے لگے جب وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مدینہ چھوڑ کر چلے گئے ، تو کیا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ قبر سے نکل کر انہوں نے نمازیں پڑھی تھیں؟؟تواصبغ بن خلیل کا یہ جھوٹ نتر گیا، اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوگیا۔ اسی قسم کے اور بہت سے واقعات ہیں ، حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ جوکہ ایک بڑے امام ہیں، انہوں
[1] اصبغ بن خلیل القرطبی الاندلسی المالکی حافظ ذہبی کہتے ہیں کہ بڑے عبادت گزار اور صاحب ورع تھے۔اسے ابن الفرضی نے متہم بالکذب کہا بلکہ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’كان أصبغ بن خليل حافظًا للرأى على مذهب مالك فقيهًا في الشروط بصيرًا بالعقود ودارت عليه الفُتيا ولم يكن له علم بالحديث، وَلا معرفة بطرقه بل كان يعاديه ويعادي أصحابه‘‘(لسان المیزان : ۲/۱۵۲)قاسم بن اصبغ نے اصبغ بن خلیل سے مصنف ابن ابی شیبہ کی توہین پر مبنی سخت کلمات سنے تو اس کو بددعا کی (سیر اعلام النبلاء : ۱۳/۲۰۲، مؤسسۃ الرسالۃ ) [2] حافظ ذہبی یہ روایت نقل کرنے کے بعد قاضی عیاض کا اس پر تبصرہ نقل کیا : ’’فوقع في خطأ عظيم بين، منها أن سلمة بن وردان لم يرو عن الزهري، ومنها أن الزهري لم يرو عن الربيع بن خثيم ولا رآه. ومنها قوله - عن ابن مسعود: صليت خلف على بالكوفة خمس سنين، وقد مات ابن مسعود في خلافة عثمان بالإجماع‘‘ اور پھر خود تبصرہ کیا کہ ’’قلت: ومنها أنه ما صلى خلف عمر وعثمان إلا قليلا، لأنه كان في غالب دولتهما بالكوفة، فهذا من وضع أصبغ‘‘ (میزان الاعتدال )