کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 62
مِائَۃٍ شَاۃٌ فَاِذَا کَانَتْ سَائِمَۃُ الرَّجُلِ نَاقِصَۃً مِنْ اَرْبَعِیْنَ شَاۃً وَاحِدَۃً فَلَیْسَ فِیْہَا صَدَقَۃٌ اِلاَّ اَنْ یَّشَائَ رَبُّہَا وَفِی الرِّقَّۃِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ اِلاَّ تِسْعِیْنَ وَمِائَۃً فَلَیْسَ فِیْہَا شَیْئٌ اِلاَّ اَنْ یَّشَائَ رَبُّہَا ۔رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں بحرین کا حاکم مقرر کیا تو ان کو یہ احکامات لکھ کر دئیے(شروع اللہ کے نام سے جو بہت مہربان ہے رحم فرمانے والا)یہ وہ زکاۃہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر کی،اور جس کا حکم اللہ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا پس اس حکم کے مطابق جس مسلمان سے زکاۃمانگی جائے وہ ادا کرے اور جس سے زیادہ مانگی جائے وہ ہر گز نہ دے۔ چوبیس اونٹوں میں یا ان سے کم میں ہر پانچ میں ایک بکری دینی ہو گی۔پانچ سے کم میں کچھ نہیںجب پچیس اونٹ ہو جائیں پینتیس اونٹوں تک تو ان میں ایک برس کی اونٹنی دینا ہو گی۔جب چھتیس اونٹ ہو جائیں پینتالیس تک تو ان میں دو برس کی اونٹنی دینا ہو گی۔جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں ساٹھ اونٹوں تک تو ان میں تین برس کی اونٹنی جفتی کے لائق دینا ہو گی۔جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں پچھتر اونٹوں تک تو ان میں چار برس کی اونٹنی دینا ہو گی۔جب چھہتر اونٹ ہو جائیں نوے اونٹوں تک تو ان میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں دینا ہوں گی جب اکانوے اونٹ ہو جائیں ایک سو بیس اونٹوں تک تو ان میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں جفتی کے قابل دینا ہوں گی۔جب ایک سو بیس اونٹوں سے زیادہ ہو جائیں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی اونٹنی اور ہر پچاس میں تین برس کی اونٹنی دینا ہو گی اور جس کے پاس چار ہی (یا چار سے بھی کم)اونٹ ہوں تو ان پر زکاۃنہیں ہے مگر جب مالک اپنی خوشی سے کچھ دے۔جب پانچ اونٹ ہو جائیں۔تو ایک بکری دینا ہو گی اور جب جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس ہو جائیں ایک سو بیس بکریوں تک تو ایک بکری دینا ہو گی جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو جائیں دو سو تک تو دو بکریاں دینا ہوں گی جب دو سو سے زیادہ ہو جائیں تین سو تک تو تین بکریاں دینا ہوں گی جب تین سو سے زیادہ ہو جائیں تو ہر سینکڑے کے پیچھے ایک بکری دینا ہو گی۔ جب کسی شخص کی چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں زکاۃنہیں ہے مگر اپنی خوشی سے مالک کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے،اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃمیں دینا ہو گا(بشرطیکہ دو سو درہم یا اس سے زیادہ چاندی ہو)لیکن اگر ایک سو نوے درہم(یا ایک سو ننانوے)برابر چاندی ہو تو زکاۃنہ ہو گی لیکن اگر
[1] صحیح بخاری کتاب الزکاۃ باب زکاۃ الغنم