کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 53
کر دیجئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سبکدوش کر دیا۔اسے طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے۔ مسئلہ نمبر:45 زکاۃوصول کرنے والے کو کسی زکاۃدینے والے سے تحفہ نہیں لینا چاہئے۔ عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنَ الْأَسْدِ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ اللُّتْبِيَّةِ - قَالَ عَمْرٌو: وَابْنُ أَبِي عُمَرَ - عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا لِي، أُهْدِيَ لِي، قَالَ: فَقَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَحَمِدَ اللهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَقَالَ: " مَا بَالُ عَامِلٍ أَبْعَثُهُ، فَيَقُولُ: هَذَا لَكُمْ، وَهَذَا أُهْدِيَ لِي، أَفَلَا قَعَدَ فِي بَيْتِ أَبِيهِ، أَوْ فِي بَيْتِ أُمِّهِ، حَتَّى يَنْظُرَ أَيُهْدَى إِلَيْهِ أَمْ لَا؟ وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا يَنَالُ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا جَاءَ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَحْمِلُهُ عَلَى عُنُقِهِ بَعِيرٌ لَهُ رُغَاءٌ، أَوْ بَقَرَةٌ لَهَا خُوَارٌ، أَوْ شَاةٌ تَيْعِرُ "، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْنَا عُفْرَتَيْ إِبْطَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «اللهُمَّ، هَلْ بَلَّغْتُ؟» مَرَّتَيْنِ۔رَوَاہُ مُسْلِمٌ[1] حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسد(قبیلہ)کے ایک شخض ابن لتبیہ نامی کو(عامل مقرر فرمایا،حضرت عمرو رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن ابوعمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زکاۃ وصول کرنے کے لئے (تحصیلدار)مقرر فرمایا تھا)جب وہ شخص واپس آیا توکہنے لگا’’یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا (یعنی بیت المال کا)حصہ ہے اور یہ میرا حصہ ہے ،جو مجھے بطور تحفہ دیا گیا(یہ سن کر)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے،اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی اور پھر فرمایا’’اس تحصیلدار کا معاملہ کیسا ہے جسے میں نے زکاۃوصول کرنے کے لئے بھیجااور(واپس آ کر)کہتا ہے یہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مال ہے اور یہ مجھے بطور تحفہ دیا گیا ہے وہ اپنے باپ یا ماں کے گھر کیوں نہ بیٹھا رہا پھر دیکھتا کہ اسے تحفہ ملتا ہے یا نہیں،قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے کہ تم میں سے جو شخص اس طرح سے کوئی مال لے گا(یعنی تحفہ وغیرہ کے نام پر)تو وہ قیامت کے دن اپنی گردن پر اٹھا کر لائے گا اونٹ ہو گا تو وہ بلبلاتا ہو گا۔گائے ہو گی تو وہ ڈکارتی ہو گی۔بکری ہو گی تو وہ ممیاتی ہو گی ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے حتی کہ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی نظرآ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا’’یا اللہ!میں نے (تیرا حکم)پہنچا دیا ۔‘‘اسے مسلم نے روایت کیاہے
[1] صحیح مسلم کتاب الامارۃ باب تحریم ہدایا العمال