کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 23
کسانوں اور مزدوروں کی جیب سے،جن کی تعداد ملک کے اندر بلاشبہ کروڑوںمیں ہے یہ لوگ ایک دفعہ سود کے چکر میں پھنستے ہیں توعمر بھر نکل نہیں پاتے۔حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے:
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
سودی نظام کے ذریعے فرد واحدپر جو ظلم ہو رہا ہے وہ تو ہے ہی۔لمحہ بھر کے لیے غور فرمائیں۔ ملکی معیشت پر یہ سودی نظام کتنی بڑی لعنت بن کر مسلط ہے۔سرمایہ دار اپنا سرمایہ بنکوں یا مختلف سکیموں میں رکھ کر سود در سود کھاتا رہتا ہے۔سرمایہ رکھنے کی وجہ سے ملکی پیداوار،کاروبار اور تجارت میں شدید کمی واقع ہوتی ہے۔اور یوں برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے جو بالاخر ملک میں زر مبادلہ کی کمی اور کثیر غیر ملکی قرضوں کا باعث بنتا ہے۔ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے حکومت ہر سال ٹیکسوں میں اضافہ کر دیتی ہے۔کسٹم ڈیوٹیاں بڑھتی ہیں جس کے نتیجے میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔اور اس طرح عام آدمی جو براہ راست سود میں ملوث نہیں ہوتا۔سودی نظام کی وجہ سے وہ بھی بمشکل جسم و جان کا رشتہ قائم رکھ پاتا ہے۔شریعت نے سود کی اس درجہ و عید بلاوجہ تو نہیں بتائی ۔
قرآن مجید میں اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلان جنگ قرار دیا گیا ہے۔(سورہ بقرہ، آیت نمبر279)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ’’سود کے ستر درجے ہیں،ان میں سے کم تر درجہ ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے۔(ابن ماجہ)
معراج کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو دیکھا جن کے پیٹ مکانوں کی طرح (بڑے بڑے)تھے اور ان میں سانپ ہی سانپ بھرے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پوچھنے پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ سود کھانے والے لوگ ہیں۔(مسند احمد،ابن ماجہ)
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون میں وجوب زکاۃاور حرمت سود دونوں حکم پوری بنی نوع انسان کے لیے برکت ہی برکت اور خیر ہی خیر ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ آج جب پوری نوع انسانی