کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 22
ہو سکتا ہے۔زکاۃکے فیوض و برکات کاایک دوسرے پہلو سے بھی جائزہ لیجئے۔صرف ایک سال کی زکاۃ،پانچ ارب روپے سے جہاں دو لاکھ بے خانماں لوگوں کو جو گھر میسر آئیں گے اور ایک لاکھ ستر ہزار بچوں کی کفالت ہو گی وہاں دو لاکھ مکانوں کی تعمیر یا تین سو مراکز کی تعمیر کے لیے پانچ ارب روپیہ گردش میں آئے گا۔جس کا کثیر حصہ کاریگروں،مستریوں،مزدوروں اور دوکانداروں کے ہاتھوں میں جائے گا جو براہ راست عام آدمی کی خوشحالی کا باعت بنے گا۔گویا زکاۃکا حکم ایسا کثیر الفوائد عمل ہے جو دین کی تکمیل اور تقرب الی اللہ کے علاوہ ایک عام آدمی سے لے کر پورے ملک کی اجتماعی خوشحالی کا ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زکاۃفرض ہونے کے چند ہی سال بعد مدینہ کی اسلامی ریاست میں اس قدر خوش حالی ہو گئی تھی کہ زکاۃدینے والے بہت تھے اور لینے والا کوئی نہ تھا۔
اب شریعت اسلامی کے دوسرے اہم حکم…حرمت ِسود…کاجائزہ لیجئے۔ہمارے ہاں بنک اور مختلف ادارے یا کمپنیاں چھ فی صد سے لے کر دس،بیس اور تیس فی صد تک سود دیتی ہیں۔بعض سکیمیں ایسی بھی ہیں جن میں چار پانچ سال بعد اصل رقم دگنی ہو جاتی ہے۔ان سب سے بڑھ کر ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس کی سکیم ہے جس میں دس سال بعد اصل رقم26ء4 گنا یعنی 426فی صد اضافہ کے ساتھ واپس کی جاتی ہے۔یاد رہے چند سال قبل یہ رقم9ء3 گنا تھی جو اب بڑھا کر26ء4کر دی گئی ہے۔مثلاً ایک شخص ہر ماہ دس ہزار روپے دس سال تک اس سکیم میں جمع کرواتا ہے،تو دس سال بعد یہ شخص ہر ماہ42 ہزار6 سو روپے وصول کرے گا ایک اور سکیم ’’ماہانہ آمدنی اکاؤنٹ‘‘کے نام سے بھی جاری کی گئی ہے۔جس میں اگر کوئی شخص پانچ سال کے لئے ہر ماہ دس ہزار روپے (یا کم و بیش جتنے بھی چاہے)کم سے کم رقم100 روپے جمع کرواتا رہے تو پانچ سال کے بعد اس شخص کو تاحیات دس ہزار روپے ماہانہ(یا جتنی رقم وہ پانچ سال تک ہر ماہ جمع کرواتا رہے)ملتے رہیں گے۔گویا سرمایہ دار گھر بیٹھے کسی محنت اور مشقت کے بغیر۔ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں روپے کما سکتا ہے ایسے شخص کو فیکٹری یا کارخانہ وغیرہ لگا کر محنت کے علاوہ نقصان کا خطرہ مول لینے کی آخر کیا ضرورت ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ سرمایہ دار تو مختلف کمپنیوں یا سکیموں سے بڑھتا چڑھتا سود وصول کر لیتا ہے لیکن یہ آتا کہاں سے ہے۔ چھوٹے درجے کے صنعتکاروں،متوسط طبقہ کے تاجروں، چھوٹے زمینداروں،