کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 21
اس کے ساتھ ساتھ شریعت نے ایسے تمام راستوں پر دولت خرچ کرنے سے سختی سے منع فرما دیا جس سے آدمی کا اپنا اخلاق تباہ ہوتا یا معاشرے میں کوئی بگاڑ پیدا ہوتا ہو مثلاً شراب،جوا، زنا وغیرہ یہ بات یاد رہے کہ یہ حدود مقرر کرنے کے بعد شریعت نے شخصی ملکیت پر کسی قسم کی پابندی یا حد مقرر نہیں کی،جائز اور حلال طریقے سے کوئی شخص کروڑوں کا مالک بن جائے تو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ دولت کمانے اور خرچ کرنے کے احکامات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد پورے وثوق سے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اسلام نے معاشرہ میں ہر طبقے کے ہر فرد کو پورا پورا معاشی تحفظ عطا کیا ہے اور حق تلفی و لوٹ کھسوٹ کے تمام راستے بند کر دیئے ہیں۔ دولت کمانے اور خرچ کرنے کے تمام احکامات کا الگ الگ جائزہ لینا یہاں ممکن نہیں البتہ دولت خرچ کرنے کے بارے میں ایک اہم ترین حکم…وجوب زکاۃ…اور دولت کمانے کے بارے میں ایک اہم ترین حکم…حرمت ِسود…کا مختصر جائزہ یہاں پیش کرنا ضروری ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں ملکی سطح پر جس طرح کی ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ کے واقعات اخبارات میں آتے رہے ہیں اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وطن عزیز پاکستان میں اب سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں کروڑ پتی لوگ موجود ہیں۔ایک شخص جس کے پاس دس کروڑ روپے ہوں اس کی سالانہ زکاۃپچیس لاکھ روپے بنتی ہے۔اگر ایک شہر میں صرف ایک کروڑ پتی رہتا ہو جو ایمانداری سے اپنی زکاۃادا کرتا ہو تو چند سالوں میں ہی اس شہر کے بیشتر محتاجوں اور مسکینوں کے معاشی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اگر پاکستان کے ہر شہر اور علاقے کے تمام صاحب نصاب افراد اپنی اپنی زکاۃادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر شہر اور علاقہ معاشی لحاظ سے خوش حال نہ ہو۔ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کی سالانہ زکاۃپانچ ارب روپے بنتی ہے۔صرف ایک سال کی زکاۃسے اگر اوسط درجے کے مکان تعمیر کئے جائیں تو دو لاکھ مکان تعمیر ہو سکتے ہیں۔ اتنی ہی رقم میں اگر یتیم اور بے سہارا بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا مقصود ہو تو سارے ملک میں ایک سال کی زکاۃسے تین سو ایسے مراکز تعمیر کیے جا سکتے ہیں جن میں ایک لاکھ ستر ہزار بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انتظام ہو سکتا ہے۔اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ملک میں صحیح طریقے سے نظام زکاۃنافذہو جائے تو چند ہی سالوں کے اندر اندر پورے ملک میں عظیم معاشی انقلاب بپا