کتاب: زکوۃ کے مسائل - صفحہ 18
دارانہ انداز فکر کو دنیا میں ایک نظام کے طور پر متعارف کرایا گیا جس کی بنیاد اس فلسفہ پر تھی کہ ہرآدمی اپنی دولت کا مکمل مالک اور مختار ہے،اسے جہاں چاہے جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔سوسائٹی اور معاشرے پر اس کے اثرات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں خواہ اس سے اس کا اپنا اخلاق اور کردار تباہ ہو یا پورے معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی پھیلے،سرمایہ دارانہ نظام اس سے کوئی تعرض نہیں کرتا۔اسی طرح زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی ہوس میں چند گھروں کا سکون اور چین برباد ہو یا پوری کی پوری قوم اس کی ہوس زر کی بھینٹ چڑھے،سرمایہ دارانہ نظام اس پر کوئی قانونی یا اخلاقی پابندی عائد نہیں کرتا۔اس بے رحم اورسنگدلانہ شیطانی نظام میں جہاں اخلاقی لحاظ سے انسانی اقدار کی کوئی قدر و قیمت نہیں وہاں معاشی لحاظ سے سرمایہ صرف سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہی گردش کرتارہتا ہے جب کہ بے سرمایہ افراد قرضوں اور سود در سود کے بوجھ تلے دبے چلے جاتے ہیں۔دنیا جب اس نظام کی فریب کاریوں سے آگاہ ہوئی تو ’’مساوات‘‘ اور’’عدل‘‘ جیسے دلکش الفاظ کے حوالے سے دنیا کو ایک دوسرے شیطانی نظام… اشتراکیت…سے متعارف کرایا گیا جس کا بنیادی فلسفہ’’حریت فرد‘‘ اور’’حریت فکر‘‘کی مکمل نفی تھی۔حکومت تمام وسائل، دولت، زمینوں، کارخانوں، فیکٹریوںاوردیگر اموال وغیرہ کی مالک اور فردمکمل طور پر محروم!فرد ایک لگی بندھی غلامانہ زندگی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا اور حکومت کے چند افراد پوری قوم کی تقدیر کے مالک و مختار!حکیم الامت علامہ اقبال رحمہ اللہ علیہ نے اشتراکی نظام پر کتنا اچھا تبصرہ کیا ہے۔
یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات
پہلا نظام ظلم اور جبر کی ایک انتہا تھا اور دوسرا نظام اسی ظلم اور جبر کی دوسری انتہا ثابت ہوا۔ جس طرح دنیا ایک صدی کے اندر اندر سرمایہ دارانہ نظام سے مایوس ہو گئی اسی طرح دنیا دوسری صدی کے اختتام سے پہلے ہی اشتراکی نظام پر لعنت بھیجنے لگی اس صدی کے موجودہ عشرہ (1981ء - 1990ء )کو اگر اشتراکیت کی موت کا عشرہ قرار دیا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا جس میں نہ صرف یہ کہ اشتراکی ممالک نے اشتراکیت کا طوق گلے سے اتار پھینکا ہے بلکہ خود اشتراکیت کے علمبرداروں کے اپنے دیس ’’روس‘‘میں بھی اس ظالمانہ نظام کے خلاف علم بغاوت بلند ہونے لگا ہے۔تجربے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انسانوں کے